Monday, January 14, 2019

کیا آپ نے تاریخ کے اس دلیر ترین جاسوس کے بارے میں سن رکھا ہے۔۔۔؟ سیدناسعد بن ابی وقاص رضی للہ عنہ نے 7 افراد لشکرفارس کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کیلئے بھیجے اور انھیں حکم دیا کہ اگر ممکن ہو سکے تو اس لشکر کے ایک آدمی کو گرفتار کر کے لے آئیں۔۔۔!! یہ ساتوں آدمی ابھی نکلے ہی تھے

کیا آپ نے تاریخ کے اس دلیر ترین جاسوس کے بارے میں سن رکھا ہے۔۔۔؟
سیدناسعد بن ابی وقاص رضی للہ عنہ نے 7 افراد لشکرفارس کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کیلئے بھیجے 
اور انھیں حکم دیا کہ
اگر ممکن ہو سکے تو اس لشکر کے ایک آدمی کو گرفتار کر کے لے آئیں۔۔۔!!
یہ ساتوں آدمی ابھی نکلے ہی تھے
کہ 
اچانک انھوں نے دشمن کے لشکر کو سامنے پایا .. جبکہ ان کا گمان یہ تھا
کہ
لشکر ابھی دور ہے
انھوں نے آپس میں مشورہ کر کے واپس پلٹنے کا فیصلہ کیا ، 
مگر ان میں سے ایک آدمی نے امیر لشکرسعد کی جانب سے ذمہ لگائی گئی مہم کو سرانجام دئیے بغیر واپس لوٹنے سے انکار کر دیا۔۔۔!!
اور 
یہ چھ افراد مسلمانوں کے لشکر کی جانب واپس لوٹ آئے 
جبکہ 
ہمارا یہ بطل اپنی مہم کی ادائیگی کیلئے فارسیوں کے لشکر کی جانب تنہا بڑھتا چلاگیا!!
انھوں نے لشکر کے گرد ایک چکر لگایا 
اور
اندر داخل ہونے کیلئے پانی کے نالوں کا انتخاب کیا 
اور
اس میں سے گزرتا ہوا فارسی لشکر کے ہراول دستوں تک جاپہنچا
جو کہ 40 ہزار لڑاکوں پر مشتمل تھے۔۔۔!!
پھر وہاں سے لشکر کے قلب سے گذرتا ہوا یک سفید خیمے کے سامنے جاپہنچا ، 
جس کے سامنے ایک بہترین گھوڑا بندھا کھڑا تھا، 
اس نے جان لیا کہ یہ دشمن کے سپہ سالاررستم کا خیمہ ہے!!
چنانچہ یہ اپنی جگہ پر انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ رات گہری ہو گئی ، رات کا کافی حصہ چھا جانے پر یہ خیمہ کی جانب گئے ، اور تلوار کے ذریعے خیمہ کی رسیوں کو کاٹ ڈالا ، 
جس کی وجہ سے خیمہ رستم اور خیمہ میں موجود افراد پر گر پڑا ، 
گھوڑے کی رسی کاٹی اور گھوڑے پر سوار ہو کر نکل پڑے
اس سے ان کا مقصد فارسیوں کی تضحیک اور ان کے دلوں میں رعب پیدا کرنا تھا!!
گھوڑا لے کر جب فرار ہوئے تو گھڑسوار دستے نے ان کا پیچھا کیا
جب یہ دستہ قریب آتا تو یہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتے
اور 
جب دور ہو جاتا تو اپنی رفتار کم کرلیتے
تاکہ
وہ ان کے ساتھ آملیں ، 
کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان میں سے ایک کو دھوکے سے کھینچ کرسعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے حکم کےمطابق لے جائیں۔۔!!
چنانچہ 3 سواروں کے علاوہ کوئی بھی ان کا پیچھا نہ کر سکا
انھوں نے ان میں سے دو کو قتل کیا اور تیسرے کو گرفتار کرلیا۔۔۔!!
یہ سب کچھ تن تنہا انجام دیا۔۔۔!!
قیدی کو پکڑا ، نیزہ اس کی پیٹھ کے ساتھ لگایا ، اور اسے اپنے آگے ہانکتے ہوئے مسلمانوں کے معسکر جا پہنچے
اور
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا
فارسی کہنے لگا
مجھے جان کی امان دو میں تم سے سچ بولوں گا
سعدرضی اللہ عنہ کہنے لگے:
تجھے امان دی جاتی ہے اور ہم وعدے کی پاسداری کرنے والی قوم ہیں
لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جھوٹ مت بولنا
پھرسعد رضی اللہ عنہ نے کہا
ہمیں اپنی فوج کے بارے میں بتاؤ
فارسی انتہائی دہشناک اور ہذیان کی کیفیت میں کہنے لگا
اپنے لشکر کے بارے میں بتانے سے قبل میں تمہیں تمہارے آدمی کے بارے میں بتلاتاہوں۔۔۔ !!!
کہنے لگا : " یہ آدمی، ہم نے اس جیسا شخص آج تک نہیں دیکھا ، 
میں ہوش سنبھالتے ہی جنگوں میں پلا بڑھا ہوں ،
اس آدمی نے دو فوجی چھاؤنیوں کو عبور کیا ، جنہیں بڑی فوج بھی عبور نہ کر سکتی تھی، 
پھر سالار لشکر کا خیمہ کاٹا ، اس کا گھوڑا بھگا کر لے اڑا ، 
گھڑسوار دستے نے اس کا پیچھا کیا ، 
جن میں سے محض 3 ہی اس کی گرد کو پا سکے ،
ان میں سے ایک مارا گیا ۔جسے ہم ایک ہزار کے برابر سمجھتے تھے ،
پھر دوسرا مارا گیا جو ہمارے نزدیک ایک ہزار افراد کے برابر تھا ، 
اور دونوں میرے چچا کے بیٹے تھے
میں نے اس کا پیچھا جاری رکھا
ان دونوں مقتولین کے انتقام کی آگ سے میرا سینہ دھک رہا تھا ، 
میرے علم میں فارس کا کوئی ایسا شخص نہیں جو قوت میں میرا مقابلہ کر سکے۔اور جب میں اس سے ٹکرایا تو موت کو اپنے سر پر منڈلاتے پایا، چنانچہ میں نے امان طلب کر کے قیدی بننا قبول کر لیا
اگر تمہارے پاس اس جیسے اور افراد ہیں تو تمہیں کوئی ہزیمت سے دوچار نہیں کر سکتا۔۔۔۔!!!"
پھر اس فارسی نے اسلام قبول کر لیا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ عظیم بطل کون تھے۔۔۔؟
جنہوں نے لشکر فارس کو دہشت زدہ کیا ،
ان کے سالار کو رسوا کیا اور ان کی صفوں میں نقب لگا ایک قیدی بنا کر واپس آگئے۔
یہ طلیحہ بن خویلد الاسدی رضی اللہ عنہ تھے۔
المصدر
الكامل لابن الاثير
تاريخ الامم والملوك للطبري

Sunday, January 6, 2019

اتاترک ملعون کی جہنم روانگی: یہ وہی اتاترک ہے جو ہمارے بھگوڑے روشن خیالی مشرف کا آئیڈیل تھا۔ اور آج وزیراعظم عمران خان نے بھی اسکو آئیڈیل قرار دیا ۔۔۔ پڑھئے اسکی موت کی روداد من باب العبر


اتاترک ملعون کی جہنم روانگی: 
یہ وہی اتاترک ہے جو ہمارے بھگوڑے روشن خیالی مشرف کا آئیڈیل تھا۔ اور آج وزیراعظم عمران خان نے بھی اسکو آئیڈیل قرار دیا ۔۔۔ پڑھئے اسکی موت کی روداد من باب العبر 
آخری دنوں میں اتاترک "پارک" ہوٹل میں تھا، ہوٹل کے سامنے چھوٹی سی مسجد میں موذن نے آذان دی تو اتاترک نے اپنے آس پاس موجود لوگوں سے کہا: کون کہتا ہے کہ ہم مشہور ہیں، ہماری کیا شہرت ہے؟ اس شخص (رسول اللہ ﷺ) کو دیکھو اس نے کیسی شہرت پائی اور نام کمایا کہ اس کا نام ہر لمحے دنیا بھر کے میناروں سے گونچتا ہے۔
اتاترک اپنے بارے میں شدید خوف کا شکار تھا بڑے بڑے ڈاکٹروں کو اپنے ارد گرد جمع کیا ہوا تھا، اس کو جگر کی تکلیف تھی جسے ہر وقت پیاس بھی لگتی تھی پھر ڈاکٹر سیرنج کے ذریعےاس کے پیٹ سے پانی نکالتے تھے۔ اس کے ساتھ وہ لواطت (جس کے لیے وہ شہرت رکھتے تھے)کی وجہ سےشدید موذی مرض میں بھی مبتلا ہوگئے تھے جس کی وجہ سے اس کے جسم کے کچھ حصے میں کیڑے ہو گئے تھے جو آلات کے بغیر صرف آنکھ سے نہیں دیکھے جا سکتے تھے، یہ کیڑے سرخ رنگ کے تھے۔ ان کیڑوں کی وجہ سے اس کو خارش اور کھجلی کی بھی سخت تکلیف تھی۔ حتی کہ عیادت کے لیے آنے والے سفراء اور غیر ملکی وفود کی موجودگی میں بھی کھجلی میں مشغول رہتا۔۔۔کچھ ڈاکٹروں نے کہا یہ خارش تو ایک خاص قسم کی سرخ چیونٹی سے لگتی ہے اور یہ چیونٹی تو صرف چائنا میں پائی جاتی ہیں۔اتاتر ک ملعون1356 ہجری سے 1358 ہجری تک اسی حالت میں رہ کر 16 شعبان 1358 کو ہلاک ہو گئے۔ مرنے کے بعد اس کی نماز جنازہ کے حوالے سے شدید اختلافات سامنے آگئے وزیر اعظم چاہتے تھے کہ ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے جبکہ آرمی چیف کی رائے تھی کہ نماز جنازہ پڑھی جائے پھر ان کی نماز جنازہ اوقاف کے ڈائریکٹر "شرف الدین آفندی" نے پڑھائی جو خود اتاترک سے بدتر اور خبیث آدمی تھا۔
سب عجیب وغریب اور آخری کام جو اتاترک نے مرنے سے پہلے کیا وہ یہ تھا کہ اس نے ترکی میں برطانیہ کے سفیر کو اپنا جانشین قرار دیا اور اس کے حوالے سے وصیت بھی کی یعنی وہ مرنے کےبعد بھی اپنے آقابرطانیہ کو راضی کرنا چاہتا تھا۔
تصویر اتارک کی حالت نزاع کے وقت لی گئی تھی جو تاریخ میں محفوظ ہے۔
چند ہفتے پہلے ہمارے چیف جنرل باجوہ نے ترکی کے دورے کے دوران محمد الفاتح کی قبر کی طرف دیکھا بھی نہیں مگر اتاترک کی قبر پر حاضری دی اور پھول چڑھائے!!... 
مصادر: کتاب یہودی بت مصطفی کمال اور
طورانی بھیڑیا/ یہ کتاب مصری مصنف منصور عبد الحکیم کی ہے اور 2010 میں چھپ چکی ہے۔

دور حاضر کا فتنہ.....! کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ "اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو جب پیدا کیا تو اس میں غیرت رکھا اور اماں حوا علیہ السلام کو پیدا کیا تو اس میں شرم رکھا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے جب عورت کا شرم ڈوب جائے تو مرد خود بہ خود بے غیرت ہوجاتا ہے


دور حاضر کا فتنہ.....!
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ "اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو جب پیدا کیا تو اس میں غیرت رکھا اور اماں حوا علیہ السلام کو پیدا کیا تو اس میں شرم رکھا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے جب عورت کا شرم ڈوب جائے تو مرد خود بہ خود بے غیرت ہوجاتا ہے" 
موجودہ صدی دور ایجادات کا صدی کہلاتا ہے۔ نئی نئی ایجادات وجود میں آرہی ہیں۔ لوگوں میں ان ایجادات کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے۔ ہر عام و خاص اور عالم و جاہل ان ایجادات سے فائدہ حاصل کر رہا ہے۔ خصوصا موبائل اور انٹرنیٹ نے آج لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ لوگ بھی ان کے غلام ہو چکے ہیں۔ اور ان کی یہ دیوانگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر ہر گوشہ سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ کبھی انسان ایسی چیزیں بھی بناتا ہے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ جیسے کہ آج کل کتنے سارے ایپس (Apps) ہیں جن میں صرف وقت کا ضیاع ہے۔ ان ایپس میں سے ٹک ٹاک (Tik Tok) Big Love اور میوزیکلی (musical.ly) بھی ہیں۔ جو لوگ Tik Tok اور اس جیسی ایپلیکیشنز کے متعلق جانتے ہیں ان پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ یہ ایپلیکیشنز فحاشی اور ضیاع وقت کا اڈہ ہیں۔ ان ایپس (Apps) میں فلمی ڈائیلاگ پر ایکٹنگ (acting) کی جاتی ہے، گانے گائے اور سنیں جاتے ہیں اور بے پردگی عام ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ یہ ایپس سراپا شر ہیں، ان میں خیر کا ذرا سا بھی پہلو نہیں ہے۔ لوگوں میں ان ایپلیکیشنز (applications) کی دیوانگی دیکھنے کے قابل ہے خصوصا نوجوانان ملت اپنے اکثر اوقات کو ان ایپلیکیشنز میں ہی ضائع کرتے ہیں۔
بڑا افسوس ہوتا ہے کہ جس ”وقت“ اور ”جوانی“ کی شریعت اسلامیہ نے اتنی اہمیت بتلائی ہے اسکو یہ نوجوانان ملت بے دریغ لایعنی اور فضولیات میں صرف کر رہے ہیں۔ یہی نہیں نوجوان لڑکیاں بھی ”لڑکیاں لڑکوں سے کم نہیں“ کا پرفریب نعرہ لگاتے ہوئے ان فحش کاریوں کے دلدل میں کود پڑی ہیں۔
شریعت اسلامیہ ہمیں لایعنی کاموں سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتی ہے اور لایعنی کاموں سے اجتناب کو انسان کے اسلام کا حسن قرار دیتی ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ
ترجمہ: کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے۔
(سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2317، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3976۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول باتوں اور کاموں کو ترک کر دے اور اپنے آپکو صرف ان باتوں اور کاموں میں مشغول رکھے جن کا کوئی فائدہ ہو، جو توجہ کے قابل ہوں اور جن کا کوئی مقصد و مطلب ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب انسان فضولیات سے اجتناب کرتا ہے صرف بامقصد اور فائدے مند چیزوں میں مشغول رہتا ہے تو وہ اپنے اسلام کے حسن اور خوبی کو کمال کے درجہ تک لے جاتا ہے اور جس کا اسلام بہتر ہو جائے اس کا کیا کہنا۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَحْسَنَ أَحَدُكُمْ إِسْلَامَهُ، فَكُلُّ حَسَنَةٍ يَعْمَلُهَا تُكْتَبُ لَهُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَكُلُّ سَيِّئَةٍ يَعْمَلُهَا تُكْتَبُ لَهُ بِمِثْلِهَا
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص جب اپنے اسلام کو عمدہ بنا لے تو ہر نیک کام جو وہ کرتا ہے اس کے عوض دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہر برا کام جو کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے (جتنا کہ اس نے کیا ہے)۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 42)
گویا کہ اگر انسان اپنے آپ کو فضولیات سے محفوظ رکھتا ہے تو وہ فضائل کا حقدار بن جاتا ہے۔
اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے ہمیں نفع بخش چیزوں کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے کی وصیت فرمائی ہے، فرمایا:
احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ
ترجمہ: جس چیز سے تمہیں (حقیقی) نفع پہنچے اس کی حریص بنو۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2664)
لہذا ہمیں ایسی چیزوں کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے جو ہمارے لئے فائدے کا باعث ہوں۔
آج لوگ اپنے خالی اوقات کو اور اپنی صحت کو غنیمت نہیں سمجھتے بلکہ ان کو معاصی میں استعمال کرتے ہیں، حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا:
اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ
ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔
(مستدرک حاکم ط دار الکتب العلمیۃ: 4/341، حدیث نمبر: 7846۔ مسند شہاب قضاعی ط الرسالۃ: 1/425، حدیث نمبر: 729۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے)
◈ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تصحیح کی ہے۔
(صحيح الترغيب والترهيب ط مکتبۃ المعارف: 3/311، حدیث نمبر: 3355)
یہ حدیث بہت جامع ہے۔ اس میں اللہ کے رسول ﷺ نے ان چیزوں کے متعلق تنبیہ فرمائی ہے جن کے بارے میں اکثر لوگ غفلت کے شکار رہتے ہیں۔لیکن ان نعمتوں کی اہمیت کے باوجود لوگ انکی قدر نہیں کرتے۔ نبی ﷺ نے فرمان ہے:
نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ، وَالْفَرَاغُ
ترجمہ: دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6412)
آج ہم سوچتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں، جیسا چاہیں عمل کریں، جوابدہی کا احساس ہمارے اندر سے ختم ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم گناہ کرتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں ہچکچاتے۔ اللہ ﷻ نے ہمیں متنبہ کرتے ھوئے فرمایا:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ
ترجمہ: کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے؟
(سورۃ المؤمنون: 115)
اس آیت کریمہ میں اللہ ﷻ نے لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم اپنے مرضی کے مالک ہو، چاہے جیسا عمل کر سکتے ہو تو اچھی طرح یہ بات ذہن نشین کر لو کہ تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ ہے عبادت، لہذا اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرو۔ لایعنی کاموں اور فضولیات میں پڑ کر شریعت کی مخالفت کرکے تم بچ نہیں سکو گے بلکہ تم سے ایک ایک چیز کا حساب ہوگا۔ نبی ﷺ نے بھی اسی بات کو بیان کیا ہے:
لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ، وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ
ترجمہ: آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا۔
(سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2416۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے)
۔
اس حدیث کو دیکھ کر تصور کریں! اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا ہم بروز قیامت اللہ کے سامنے جوابدہی کی استطاعت رکھتے ہیں؟ کیا ہم اپنی جوانی اور مال کا صحیح استعمال کر رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنی جوانی اور مال گانے سننے اور فلمیں دیکھنے میں لگا رہے ہیں؟ کیا ہم نے آخرت کی تیاری کر لی یے؟
یاد رکھیں! آپ کا ہر ہر عمل ریکارڈ ہو رہا ہے۔ آپ ٹک ٹاک ایپلیکیشن (tik tok app) میں وڈیوز اپلوڈ (upload) کرنے میں مصروف ہوں یا اس میں موجود فحش کاریوں کو دیکھنے میں، فیس بک، واٹس ایپ (whatsapp) میں گانے، فلمی ڈائیلاگ اور رومانس بھرے اسٹیٹس (status) لگانے میں مشغول ہوں یا یوٹیوب (youtube) اور دیگر ویب سائٹس (websites) میں فحش چیزیں پھیلانے میں، یا پھر موبائل میں گانے سننے اور فلمیں (خواہ وہ فحش فلمیں ہوں یا اسکے علاوہ) میں آپکا وقت صرف ہو رہا ہو۔ غرض یہ کہ آپ کا ہر ہر عمل ریکارڈ ہو رہا ہے۔ فرمان الہی ہے:
مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ
ترجمہ: (انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر یہ کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے۔
(سورۃ ق: 18)
مزید فرمایا:
وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ﴿10﴾ كِرَامًا كَاتِبِينَ﴿11﴾ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ
ترجمہ: تم پر محافظ بزرگ (فرشتے) لکھنے والے مقرر ہیں، جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں۔
(سورۃ الانفطار: 10-12)
اور یہ ریکارڈ برائے ریکارڈ نہیں ہے بلکہ قیامت کے دن یہ ریکارڈ ہمارے سامنے پیش کئے جائیں گے:
وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ
ترجمہ: اور نامہ اعمال سامنے رکھ دئے جائیں گے۔ پس تو دیکھے گا کہ گنہگار اس کی تحریر سے خوفزده ہو رہے ہوں گے۔
(سورۃ الکہف: 49)
لہذا اپنے ریکارڈ کو بہتر بنائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی قیامت کے دن ان لوگوں کی صف میں شامل ہو جائیں:
يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا
ترجمہ: ہائے ہماری خرابی یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا بغیر گھیرے کے باقی ہی نہیں چھوڑا، اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے۔
(سورۃ الاسراء: 49)
پھر وہاں کوئی راہ فرار نہ ہوگی۔ وہاں آپ کے اعضاء خود آپ کے خلاف گواہی دیں گے:
الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
ترجمہ: ہم آج کے دن ان کے منہ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے، ان کاموں کی جو وه کرتے تھے۔
(سورۃ یس: 65)
ٹک ٹاک (tik tok) اور میوزیکلی (musical.ly) جیسے ایپس وقت کی بربادی اور فضولیات کے ساتھ ساتھ درج ذیل گناہوں کو بھی شامل ہیں:
➊ موسیقی:
نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ ، وَالْحَرِيرَ ، وَالْخَمْرَ ، وَالْمَعَازِفَ وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوحُ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ يَأْتِيهِمْ يَعْنِي الْفَقِيرَ لِحَاجَةٍ ، فَيَقُولُونَ ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا ، فَيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً ، وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
ترجمہ: میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زناکاری، ریشم کا پہننا، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر (اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لئے) چلے جائیں گے۔ چرواہے ان کے مویشی صبح و شام لائیں گے اور لے جائیں گے۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لئے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ ﷻ رات کو ان کو (ان کی سرکشی کی وجہ سے) ہلاک کر دے گا، پہاڑ کو (ان پر) گرا دے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لئے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کر دے گا۔
(امام بخارى رحمہ اللہ نے اسے صحيح بخارى: 5590 ميں معلقا ذکر كيا ہے لیکن امام بيہقى رحمہ اللہ نے السنن الكبرى ط دار الکتب العلمیۃ: 10/373، حدیث نمبر: 20988 ميں اور امام طبرانى رحمہ اللہ نے المعجم الكبير ط مکتبۃ ابن تیمیہ: 3/282، حدیث نمبر:3417 ميں اسے موصولا ذکر كيا ہے، جبکہ علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ط مکتبۃ المعارف: 1/186، حدیث نمبر: 91 ميں اسے صحيح قرار ديا ہے)
اتنی سخت وعید ہونے کے باوجود ٹک ٹاک (tik tok) اور واٹس ایپ اسٹیٹس (whatsapp status) کے ذریعہ نوجوانان ملت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کر کے اپنی آخرت برباد کر رہے ہیں۔ اے کاش کے وہ صحابہ کے آثار سے اثر لیتے اور موسیقی سے اجتناب کرتے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل دیکھیں کہ وہ کیسے موسیقی سے دور بھاگتے تھے:
عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ مِزْمَارًا ، قَالَ : فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى أُذُنَيْهِ وَنَأَى عَنِ الطَّرِيقِ ، وَقَالَ لِي : يَا نَافِعُ هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا ، قَالَ : فَقُلْتُ : لَا ، قَالَ : فَرَفَعَ إِصْبَعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ ، وَقَالَ : كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَ مِثْلَ هَذَا فَصَنَعَ مِثْلَ هَذَا
ترجمہ: نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک باجے کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈال لیں اور راستے سے دور ہو گئے اور مجھ سے کہا: اے نافع! کیا تمہیں کچھ سنائی دے رہا ہے میں نے کہا: نہیں، تو آپ نے اپنی انگلیاں کانوں سے نکالیں، اور فرمایا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس جیسی آواز سنی تو آپ نے بھی اسی طرح کیا۔
(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 4924۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے)
➋ علانیہ گناہ:
ٹک ٹاک (tik tok) اور میوزیکلی (musical۔ly) جیسے ایپس کے استعمال میں لوگ علانیہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق حدیث ہے:
كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ
ترجمہ: میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6069)
اللہ اکبر! کتنی سخت وعید ہے۔ اسی لئے ہمارے اسلاف بھی علانیہ گناہ کو بہت عظیم گردانتے تھے۔ چنانچہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يُقَالُ: إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لاَ يُعَذِّبُ الْعَامَّةِ بِذَنْبِ الْخَاصَّةِ۔ وَلَكِنْ إِذَا عُمِلَ الْمُنْكَرُ جِهَاراً اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ كُلُّهُمْ
ترجمہ: کہا جاتا ہے کہ اللہ ﷻ خاص لوگوں کے گناہ کے سبب عام لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا مگر جب گناہ علانیہ کئے جائیں گے تو سب کے سب عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔
(مؤطا امام مالک ت الاعظمی: 5/1443، حدیث نمبر: 3636)
◈ شیخ سلیم ھلالی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
(المؤطا بروایاتہ الثمانیۃ ت الھلالی: 4/521)
اس کی تائید نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّى يَرَوُا الْمُنْكَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ يُنْكِرُوهُ فَلَا يُنْكِرُوهُ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَذَّبَ اللَّهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ
ترجمہ: اللہ ﷻ خاص لوگوں کے عمل (گناہ) کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا یہاں تک کہ وہ اپنے سامنے برائی دیکھیں اور اس کے مٹانے پر قادر ہوں پھر بھی اس خلاف شرع کام کو نہ روکیں تو اللہ ﷻ عام و خاص سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔
(مسند احمد ط الرسالۃ: 29/258، حدیث نمبر: 17720۔ مسند احمد کے محققین نے اس حدیث کو حسن لغیرہ کہا ہے)
➌ گناہوں کی تبلیغ:
ان ایپس کے ذریعہ لوگ دوسروں کو گناہوں کی دعوت دیتے ہیں۔ فلمی ڈائیلاگ پر ایکٹنگ کر کے انہیں فلم بینی پر ابھارتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ ﷻ نے کتنی سخت وعید سنائی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔
(سورۃ النور: 19)
➍ بے پردگی:
ان ایپلیکیشنز کے ذریعہ عورتیں خوب بے پردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ بن سنور کر ویڈیو بناتی ہیں اور اس کو نشر کر کے لوگوں کو دعوت عامہ دیتی ہیں۔ یاد رکھیں عورت کا اپنے فوٹوز اور ویڈیوز بنانا اور اس کو لوگوں کے مابین نشر کرنا تبرج اور اظہار زینت ہے۔ اور اللہ ﷻ کا فرمان ہے:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى
ترجمہ: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو۔
(سورۃ الاحزاب: 33)
پیاری بہنو! ذرا عبرت کے ناخن لو! صحابیات کی زندگی کا مطالعہ کرو کہ وہ کیسے پردہ کیا کرتی تھیں اور تم ہو کہ بن سنور کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی پھرتی ہو۔
یہ بے پردگی صرف عورتوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مرد حضرات بھی اس بے پردگی میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اللہ ﷻ کا فرمان ہے:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ
ترجمہ: مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت رکھیں۔
(سورۃ النور: 30)
اللہ ﷻ نے تو مرد حضرات کو اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دے کر پردہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر کوئی بے پردہ لڑکی نظر آ جائے تو یہ اس کی طرف دیکھنے کو پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور ٹوکنے پر یہ کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں لڑکی خود پردہ نہیں کر رہی ہے حالانکہ خود ان کو بھی نظر کا پردہ کرنے کا حکم بکلام الہی صادر ہو چکا ہے۔ اور نبی ﷺ نے بھی یہی حکم فرمایا تھا، چنانچہ جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَظَرِ الْفُجَاءَةِ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِي
ترجمہ: میں نے رسول اللہ ﷺ سے اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں پوچھا تو آپ (ﷺ) نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نظر ہٹا لوں۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2159)
اور انس رضی اللہ عنہ نے بھی یہی تعلیم دی ہے، فرمایا:
إِذَا مَرَّتْ بِكَ امْرَأَةٌ، فَغَمِّضْ عَيْنَيْكَ حَتَّى تُجَاوِزَكَ
ترجمہ: جب تمہارے سامنے سے کوئی عورت گزرے تو اس کے گزرنے تک تم اپنی آنکھیں بند رکھو۔
(کتاب الورع لابن ابی الدنیا ط دار السلفیۃ، صفحہ نمبر: 66، حدیث نمبر: 72، کتاب کے محقق نے اس کی سند کو حسن کہا ہے)
اتنے واضح فرامین ہونے کے باوجود مرد حضرات عورتوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں اور انکے نشیب و فراز کا جائزہ لیتے ہیں۔ گویا کہ وہ اپنے گناہ کو ہلکا سمجھتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں دو لڑکیوں کا فوٹو سوشل میڈیا پر خوب وائرل کیا گیا، ان پر سخت جملے کسے گئے، انکو مجرہ کرنے والیاں اور نجانے کیا کیا کہا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لڑکیوں نے ایک غلط کام کا ارتکاب کیا تھا لیکن کسی کی غلطی پر ایسا عمل چہ معنی دارد؟ کیا اس طرح اصلاح ہوتی ہے؟ کیا صرف عورتوں سے ہی گناہ کا صدور ہوتا ہے؟ کیا مرد حضرات عشق و معاشقہ کے چکر میں نہیں پڑھتے؟ اگر مرد حضرات بھی گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں تو کیا اس طرح سے ان کی اصلاح کی جاتی ہے؟ ہمیں ان باتوں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے ذہن میں یہ بات راسخ کرنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح سے کسی کی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ اس طرح سے بدنامی ہوتی ہے-
خلاصہ کلام یہ ٹک ٹاک (tik tok)، میوزیکلی (musical۔ly) اور اس جیسی تمام ایپلیکیشنز نہ صرف وقت کا ضیاع ہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی کا سبب ہیں۔ یہ ایپلیکیشنز ہمیں جہنم کے راستے کی طرف لے جانے والی ہیں۔ لہذا ان سے بچیں، اللہ نے ہمیں جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کو غنیمت جانیں اور وقت کی اہمیت کو سمجھیں، اسکو ضائع نہ کریں۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِضَاعَة الْوَقْت أَشد من الْمَوْت لِأَن إِضَاعَة الْوَقْت تقطعك عَن الله وَالدَّار الْآخِرَة وَالْمَوْت يقطعك عَن الدُّنْيَا وَأَهْلهَا الدُّنْيَا
ترجمہ: وقت کا ضیاع موت سے زیادہ سخت ہے کیونکہ وقت کا ضیاع آپ کو اللہ اور آخرت سے کاٹ دیتا ہے جبکہ موت آپ کو صرف دنیا اور اہل دنیا سے کاٹتی ہے۔ 
(الفوائد لابن القیم ط دار الکتب العلمیۃ: 13)
ساتھ ساتھ اپنے اندر جوابدہی کا احساس پیدا کریں کیونکہ جوابدہی کا احساس آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھے گا۔ جبریل علیہ السلام نے نبی اکرم ﷺ سے فرمایا تھا، جس میں ہمارے لئے بہترین نصیحت ہے:
يَا مُحَمَّدُ، عِشْ مَا شِئْتَ فَإِنَّكَ مَيِّتٌ، وَأَحْبِبْ مَنْ أَحْبَبْتَ فَإِنَّكَ مَفَارِقُهُ، وَاعْمَلْ مَا شِئْتَ فَإِنَّكَ مَجْزِيٌّ بِهِ
ترجمہ: اے محمد (ﷺ)! آپ جتنا چاہیں زندہ رہیں، موت آ کر رہے گی، آپ جس سے چاہیں محبت کریں، ایک دن آپ کو اس سے جدا ہونا ہے اور آپ جو چاہیں عمل کریں بلاشبہ آپ کو اس کا بدلہ ملے گا۔ 
(مستدرک حاکم ط دار الکتب العلمی: 4/360، حدیث نمبر: 7921۔ معجم الاوسط للطبرانی ط دار الحرمین: 4/306، حدیث نمبر: 4278۔ مسند شہاب قضاعی ط الرسالۃ: 1/435، حدیث نمبر: 746۔ مسند ابی داؤد الطیالسی ط دار ھجر: 3/313، حدیث نمبر: 1862۔ شعب الایمان للبیہقی ط مکتبۃ الرشد: 13/125، حدیث نمبر: 10057۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے جبکہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے انکی موافقت کی ہے)
◈ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اسکو حسن قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد و منبع الفوائد ط مکتبۃ القدسی: 10/219، حدیث نمبر: 17644)
◈ علامہ غماری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
(المداوی لعل الجامع الصغیر وشرحی المناوی ط دار الکتبی: 1/112)
◈ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تحسین کی ہے۔
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ط مکتبۃ المعارف: 2/483، حدیث نمبر: 831
آخر میں میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہTik Tok اور Big Love جیسے ایپ جو چلتی پھرتی ہیرا منڈی ہے کو پاکستان میں بین کیا جائے-
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=667275623674611&id=443653289370180
https://www.urdu-world.com/2019/01/recent-articles-91.html

Friday, January 4, 2019

حکومت کی اسرائیل نوازی عمرفاروق /آگہی

حکومت کی اسرائیل نوازی 
عمرفاروق /آگہی
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مسلسل ایسے اقدامات کررہی ہے کہ جو نظریہ پاکستان ،اسلامی تہذیب وتمدن اورآئین پاکستان کے منافی ہیں ،اسلامی شعائرکونشانہ بنایاجارہاہے،چاہے گستاخ رسول آسیہ مسیح کی رہائی ہویاسینٹ میں ناموس رسالت قانون میں ترمیم کی کوشش ہو ،نصاب تعلیم سے کئی اہم اسلامی مضامین کو حذف کرنے کامعاملہ ہویاشراب پابندی کے بل کی مخالفت ہو ، علماء کرام کی اسناد کو ناقابل قبول قرار دیناہویاسکولوں میں دینیات کو پڑھانے کے لئے غیر مسلم اساتذہ کا کوٹہ مخصوص کرناہو۔,آرٹ کونسل میں رقص وسرورکی مخلوط اجازت ہو ،یاخطیر رقم سے سینماگھر بنانے اورسرکاری طورپربسنت کاتہواربنانے کے اعلان ہویہ تمام وہ اقدامات ہیں جن کاہماری تہذیب وثقافت ،اسلامی شعائراورنظریہ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
تازہ اقدام سے اہل پاکستان تشویش میں مبتلاہوگئے ہیں کہ آخرحکومت کس کوخوش کرنے کے لیے یہ سب کچھ کررہی ہے ؟ایک خبرکے مطابق امیگریشن کی جانب سے اسرائیلی شہریوں کو پاکستان آمد کی مشروط اجازت دیئے جانے کا انکشاف ہوا ہے،گزشتہ دنوں ایف آئی اے کی ویب سائٹ پر 7 ممالک کے شہریوں کو پاکستان آنے کی مشروط اجازت کے قوائد و ضوابط جاری کئے گئے تھے، نئی امیگریشن قوائد کی فہرست میں اسرائیل سمیت بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان، نائجیریا، فلسطین اور صومالیہ کا نام شامل کیا گیا تھا۔ویب سائٹ پر ایف آئی اے نے اسرائیلی شہریوں کے لئے بھی امیگریشن قوائد وضح کئے تھے، جن کے مطابق اسرائیلی شہریوں کی پاکستان آمد پر پولیس رجسٹریشن کرانالازمی ہو گی، اسرائیلی شہری متعلقہ ڈی پی او سے قیام پر مٹ لینے کے پابند ہوں گے اور روانگی سے قبل پرمٹ واپس کرنا ہوں گے، اور پھر انہیں ٹریول پرمٹ جاری کیا جائے گا، تاہم ٹریول پرمٹ کے حصول کے لئے انہیں قیام پرمٹ لازمی واپس کرنا ہوگا۔قوائد کے مطابق ورک ویزہ اور سارک ویزہ رکھنے والوں کو پولیس رجسٹریشن سے استثنی حاصل ہوگا، اور نئے امیگریشن رولز میں اسرائیلی شہری کو استثنی حاصل ہے تاہم بھارتی شہری اس سے مستثنی نہیں ہوں گے۔دوسری جانب ڈائریکٹرامیگریشن عصمت اللہ جونیجو نے فہرست میں اسرائیل کے نام کا نوٹس لیتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ فہرست وزارت داخلہ کی جانب سے جا ری کی گئی تھی اور جاری کیے گئے قوائد میں اسرائیل کا نام غلطی سے ڈالا گیا تھا، تاہم نشاندہی پر اسرائیل کا نام فہرست سے نکالا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امیگریشن قوائد میں اسرائیل کانام شامل نہیں، اسرائیل سے متعلق اسٹیٹ کی پالیسی بلکل واضح ہے۔
اس خبرکوپاکستانی میڈیاآسانی سے ہضم کرگیاہے حالانکہ یہ ہی میڈیاجورائی کوپہاڑبناکرپیش کرنے میں اپنی مثال آپ ہے مگراس آزادمیڈیاکے لیے شایدیہ ،،مثبت ،،خبرنہیں تھی اس لیے اس کواہمیت ہی نہیں دی گئی ڈائریکٹرامیگریشن نے اسے غلطی قراردے کرجان چھڑالی ہے حالانکہ یہ کوئی غلطی نہیں تھی بلکہ یہ ایک سوچے سمجھتے منصوبے کے تحت کیاگیاہے کیوں کہ سرکاری دفاترمیں جب بھی کسی کام کے حوالے سے فائل بنتی ہے تووہ متعلقہ ادارے کے کئی افسران سے ہوتے ہوئے اوپرپہنچتی ہے اوراس کی منظوری ہوتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں تواسرائیل کانام آتے ہی افسران کیاایک عام آدھی بھی چونک پڑتاہے چہ جائیکہ گریڈبیس اوراکیس کے افسران آنکھیں بندکرکے فائل پردستخط کردیں ایساممکن نہیں ۔
ڈائریکٹرامیگریشن کایہ کہناکہ فہرست وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کی گئی مزیدتشویش کاباعث ہے کیوں کہ وزارت داخلہ کاعہدہ وزیراعظم عمران خان کے پاس ہے البتہ وزیرمملکت کے طورپرشہریارآفریدی کام کررہے ہیں جوروزکسی ناکسی مقام پرآئین ،قانون اوراسلامی احکامات کی تبلیغ کرتے ر ہتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیرداخلہ اوروزیرمملکت برائے داخلہ کویہ پتاہی نہ ہوکہ امیگریشن کے نئے قواعدجاری کیے جائیں۔ اوراس میں ایک نظریاتی دشمن ملک کانام شامل کرلیاگیاہو؟اگروزیرداخلہ اوروزیرمملکت برائے داخلہ کواندھیرے میں رکھ کرکسی یہودی ایجنٹ نے یہ کاروائی کی ہے توکیاحکومت اس کے خلاف کاروائی کرے گی؟
ایسامحسوس ہورہاہ کہ حکومت اس الزام کوسچ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ جس میں کہاجارہاہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت یہودیت نوازہے ،یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی دنوں22اکتوبر کو راول پنڈی میں نور خان ائیر بیس پر اسرائیل کے طیارے کی مبینہ آمد کا معاملہ پر اسرار بن چکا ہے اور جوابات کا متقاضی ہے اگرچہ حکومت ایسے طیارے کی آمدکی تردیدکرچکی ہے ،تحریک انصاف کی ممبراسمبلی عاصمہ حدیدنے قومی اسمبلی کے فورم پرحقائق کومسخ کرتے ہوئے یہودیوں کی حمایت میں تقریرکی اوربعدازاں سوشل میڈیاپرانہوں نے اس کادفاع بھی کیابدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے میں ایسی تنظیمیں قائم کی گئی ہیں جوباقاعدہ پاک اسرائیل تعلقات قائم کرنے کے لیے کام کررہی ہیں ، حالیہ چندسالوں میں سوشل میڈیاپرپاک اسرائیل تعلقات کے حوالے سے جس باریک بینی سے کام کیاگیاہے اس کانتیجہ قوم کے سامنے آرہاہے موجودہ حکومت کے قیام کے بعدقادیانی اوریہودی لابی کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں، حکومتی صفوں سے ایسے اقدامات ،تقریریں اورخبریں منظرعام پرآرہی ہیں جوہمارے نظریات پربراہ راست حملہ ہیں اوراس طرح کے اقدامات سے قوم کاامتحان لیاجارہاہے کہ آیاقوم کے دلوں میں یہودیوں سے نفرت باقی ہے یاختم ہوگئی ہے قوم کے کمزورردعمل پرہمارے حکمرانوں کومزیدہلہ شیری ملتی ہے اوروہ ایک قدم آگے بڑھتے ہیں موجودہ حکومت اسرائیل سے تعلقات کی راہ ہموارکرنے کااشارہ دے رہی ہے دوسرے مرحلے میں اسرائیل کوتسلیم کرنے کامطالبہ بھی سامنے آئے گا۔
حکومت اس معاملے میں اکیلی نہیں ہے انہیں کچھ ایسے نام نہاد،،کرائے کے دانشور،،بھی میسرہیں جوہمہ وقت بکنے کے لیے دستیاب ہوتے ہیں کرائے کے یہ ٹٹوقوم کوسبق پڑھارہے ہیں کہ اب وقت آگیاہے کہ اسرائیل کوتسلیم کیے بغیریہودیوں سے تعلقات کادرمیانی راستہ نکالاجائے اوردونوں ممالک کے درمیان سفری پابندیاں ختم کی جائیں کوئی ان سے پوچھے کہ اسرائیل کوتسلیم نہ کرنے سے ملک کاکیانقصان ہورہاہے ؟اسرائیل سے تعلقات کی مہم اوریہودیوں کے حوالے سے نرم روجہ اختیارکرنے کے پیچھے بڑے مالیاتی ادارے ہیں جن کی ایماء پریہودی لابی اور ایجنٹ سرگرم ہوچکی ہیں ،ایساہی ایک کردارکراچی سے بھی نمودارہورہاہے فشیل بین خلد (Fishel Benkhald) کراچی سے تعلق رکھتاہے یہ ہمارے ملک کے واحد یہودی شہری ہے جس نے اپنی شناخت بھی ظاہر کی پاسپورٹ بھی بنوایا ہے اور یہ اب پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل بھی جانا چاہتاہے اوریہ پہلاواقعہ ہے کہ یہودی موجودہ حکومت کے آنے کے بعداس طورپرسرگرم ہوئے ہیں،وہ مطالبہ کررہاہے کہ اسے بھی اپنی مذہبی عبادت گاہوں کی زیارت کے لیے جانے کی اجازت دی جائے ۔سکھوں کے لیے کرتارپورہ بارڈرکھولنے والی حکومت سے کوئی بعیدنہیں کہ وہ کل یہودیوں کے لیے بھی کوئی راہداری کھولنے کااعلان کردے ؟
حیرت ہے کہ حکومت کے ان اقدامات پر مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس طرح کاردعمل سامنے نہیں آرہاہے جس طرح کاآناچاہیے تھافلسطین کے حق ا وراسرائیل کے خلاف مجلس وحدت مسلمین سب سے زیادہ سرگرم عمل رہی ہے مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس نے گزشتہ روزہی وزیراعظم سے ملاقات کی خبرجاری کی مگرمجھے اس خبرمیں ڈھونڈنے سے بھی اسرائیل کے خلاف ایک لفظ تک نہیں ملااورنہ ہی امیگریشن قواعدوضوابط میں تبدیلی پراحتجاج کیاگیا ؟
اسرائیل کے حامیوں کاخیال ہے کہ پاکستان کی طر ف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں تین بڑی رکاوٹیں ہیں پہلی یہ کہ مسلمان ممالک خاص کر عرب ممالک کے ساتھ یک جہتی ۔کیونکہ مذہبی آئیڈیالوجی کا پرچار کرنے والا ملک مجبور ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو اس کے مطابق رکھے دوسرے یہ کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے عرب ممالک اس کے خلاف ہو جائیں گے اور تیسرے یہ کہ پاکستان میں انتہا پسند مذہبی قوتیں بہت طاقتور ہیں جو اسرائیل سے کسی بھی تعلق پر ایک بڑے ردعمل کا موجب بن سکتی ہیں۔ ہاں اگر امریکہ پر جیو ش آرگنائزیشن اور مغربی ممالک زور ڈالیں تو وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔آگے آگے دیکھیے کیاہوتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو ملکوں کے وفود۔۔۔۔ دونوں کا بیٹھنے کا انداز دیکھیں ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھنا شاید ہماری قومی بیماری ہے۔ اس محفل میں بھی کپتان سمیت تین مندوب ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے نوابی انداز میں بیٹھے ہیں۔



دو ملکوں کے وفود۔۔۔۔ دونوں کا بیٹھنے کا انداز دیکھیں

ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھنا شاید ہماری قومی بیماری ہے۔ اس محفل میں بھی کپتان سمیت تین مندوب ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے نوابی انداز میں بیٹھے ہیں۔ آپ سامنے والے ترک میزبانوں وفد کے نشست کے انداز کو بھی دیکھیں اور ہمارے والے سپوتوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ کوئی موبائل سے کھیل رہا ہے، کسی نے کاغذوں کے پلندے میں اپنی سونڈھ ڈالی ہوئی ہے، تو کوئی ویسے ہی گردن نیچے کیے گہری سوچوں میں گم ہے۔
ترکی والے بھی کہہ رہے ہوں گے، ایک تو غریب، اوپر سے بدتمیز "سفارتی آداب سے نا آشنا گدھوں کو اب کیا کیا سیکھایا جائے...؟ 😕 😕 😕

دنیا میں مکافات عمل کی تازہ ترین مثال : ارب پتی تاجر اپنے بیٹے کے ہاتھوں عبرت کا نشان بن گیا دنیا مکافات عمل ہے، انسان سے اگر دنیا میں کوئی غلطی ہوتی ہے تو اسے اس کا خمیازہ دنیا و آخرت دونوں میں بھگتناپڑتا ہے، بسا اوقات انسان سے انجانے میں ایسی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں جس کی سنگین سزا دنیا میں ہی دے دی جاتی ہے۔


دنیا میں مکافات عمل کی تازہ ترین مثال : ارب پتی تاجر اپنے بیٹے کے ہاتھوں عبرت کا نشان بن گیا
دنیا مکافات عمل ہے، انسان سے اگر دنیا میں کوئی غلطی ہوتی ہے تو اسے اس کا خمیازہ دنیا و آخرت دونوں میں بھگتناپڑتا ہے، بسا اوقات انسان سے انجانے میں ایسی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں جس کی سنگین سزا دنیا میں ہی دے دی جاتی ہے۔
ایسا ہی ایک سبق آموز قصہ وجے پت سنگھانیا کا ہے۔ وجےپت سنگھانیا کا شمار بھارت کے امیر ترین افراد میں ہوتا تھا۔ وجے پت سنگھانیا 12ہزار کروڑ روپے کے مالک ایک امیر ترین بھارتی شہری تھے۔ وجے پت سنگھانیا نے ہر باپ کی طرح اولاد سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی تمام جائیداد اپنے بیٹے کے نام کر دی ، ناخلف بیٹے نے باپ کی پوری جائیداد ہتھیانے کے بعد اپنے ہی والد کو کوڑی کوڑی کا محتاج کر دیا۔ بھارت کےتیسرے بڑے بزنس برانڈ Raymondکے مالک وجے پت سنگھانیا ایک زمانے میں لندن سے خود جہاز اڑا کر بھارت پہنچ گئے تھےاور اس وقت یہ اجازت صرف چند لوگوں کو حاصل تھی، آج وہی وجے پت سنگھانیا ممبئی کی سڑکوں پر کسمپرسی کی حالت میں جوتے چٹخاتے پھر رہے ہیں جنہیں دیکھ کر پورا شہر سکتے کی سی حالت میں آجاتا ہے۔ وجے پت سنگھانیا کے بیٹے نے جب ان کے تمام کاروبار کی کمان سنبھالی تو ان کے برے دن شروع ہو گئے، وجے سنگھانیانے اپنے بیٹے گوتم سنگھانیا کو بے بہا دولت تو دیدی لیکن انہیں تربیت نہ دے سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نا خلف بیٹے نے باپ کو کوڑی کوڑی سے محتاج کر دیا اور وجے شہر کے ایک متوسط علاقے میں کرائے کے فلیٹ پر رہنے لگے۔وجے پت سنگھانیا کے ساتھ ہونے والے واقعات سے قبل ایسے ہی حالات ان کے بھائی کے انتقال کے بعد ان کے خاندان کے ساتھ پیش آئے ، اب وجے پت سنگھانیا، ان کی بھابی اور بچے مل کر گوتم سنگھانیا کیخلاف قانونی جنگ کا اعلان کر چکے ہیں۔
یاد رہے بھارت کے کئی ارب پتی خاندانوں میں جائیداد کی تقسیم پر جھگڑے پائے جاتے ہیں۔ جن میں ایک کپڑے کی صنعت سے وابستہ سنگھانیا خاندان بھی ہے۔ یہ خاندان مشہور برانڈ ریمنڈ کا مالک ہے۔ ریمنڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا بھر میں پینٹ کوٹ سوٹنگ کا بہترین کپڑا تیار کرتا ہے۔ اس کی بنیاد وجے پت سنگھانیا نے رکھی تھی۔ بوڑھے ہوتے ہوئے وجے پت سنگھانیا نے اپنی جائیداد اپنے بیٹے گوتم سنگھانیا کو تحفتاً منتقل کر دی تھی۔ سنگھانیا خاندان کو سن 2007 میں کاروبار میں شریک دیگر افراد کی جانب سے عدالتی رسہ کشی کا بھی سامنا رہا تھا۔ سن 2015 میں جائیداد کی گوتم سنگھانیا کو منتقلی نے بوڑھے وجے پت سنگھانیا کو پہلے بیٹے کا محتاج کیا اور پھر وہ کسی حد تک قلاش بھی ہو گئے۔ اس دوران باپ بیٹے میں ہر قسم کے روابط منقطع ہو کر رہ گئے تھے۔ گوتم سنگھانیا نے کاروبار کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اپنے والد کو سارے بزنس میں سے بتدریج باہر کر دیا۔ اُن کا ریمنڈ بورڈ کے تاحیات چئیرمن کا منصب بھی چھین لیا گیا۔ اب وجے پت سنگھانیا سن 2007 کے اُس عدالتی فیصلے کی روشنی میں اپنی جائیداد میں سے وہ حصہ واپس لینے کی کوشش میں ہیں، جو انہوں نے اپنے بیٹے کو تحفہ کی تھی۔ سن 2007 کے فیصلے کے تحت والدین اپنا دیا گیا تحفہ واپس لے سکتے ہیں، اگر اُن کی مناسب دیکھ بھال نہ کی گئی ہو۔ وجے سنگھانیا اپنے بیٹے گوتم کے ہمراہ بھارت میں ارب پتی خاندانوں میں جائیداد اور مال و اسباب کی منصفانہ تقسیم کے تنازعے کوئی نئے نہیں ہیں۔ سب سے امیر بھارتی شخصیت مکیش امبانی بھی اپنے بھائی انیل امبانی کے ساتھ والد دھیروبائی امبانی کے مرنے کے بعد جائیداد کی تقسیم پر عدالت پہنچ گئے تھے۔ یہ عدالتی کارروائی برسوں چلتی رہی۔ اس کی وجہ دھیروبائی امبانی کا وصیت کے بغیر مر جانا بتایا گیا تھا۔ بھارت ہی میں شراب اور پراپرٹی کے کاروبار میں شریک چڈا خاندان بھی متاثر ہوا۔ اس ارب پتی خاندان کے دو بھائیوں گوردیپ سنگھ عرف پونٹی چڈا اور ہردیپ سنگھ چڈا نے کاروباری تنازعے اور جائیداد کی تقسیم کے معاملے پر سن 2012 میں بات چیت کے دوران جھگڑا شروع ہونے پر ایک دوسرے کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ بھارت کے ایک اور ارب پتی خاندان کے دو بھائی مالویندر موہن سنگھ اور شویندر موہن سنگھ بھی اپنے والد کی ادویات سازی کے کاروبار کی تقسیم پر عدالتوں کے چکر کاٹتے رہے ہیں۔ یہ خاندان بھارت کے بیس ارب پتی خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔
https://ennpak.wordpress.com/…/vijaypat-singhania-sacked-a…

اللّٰہ پاک کی شان دیکھیے وائس آف امریکہ نے علامہ اقبال کے اس شعر کا مذاق اڑایا تھا کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ, مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی,


اللّٰہ پاک کی شان دیکھیے 

وائس آف امریکہ نے علامہ اقبال کے اس شعر کا مذاق اڑایا تھا

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ,
مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی,

2002 میں اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے وائس آف امریکہ voa نے کہا تھا کہ ”چلو ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کے یہ بے تیغ سپاہی کب تک امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ لڑ سکتے ہیں“

آج اقبال کے بے تیغ سپاہیوں نے ثابت کردیا کہ ”ایمان“ ہی اصل ہتھیار ہے۔

یہ ہے اسلام اور جہاد کی طاقت اور ایک مجاہد کی شان
سُبحان اللّٰہ
تصویر میں اقبال کے شاہنوں کی طرف سے سپر پاور کو دی گئی سلامی۔ 💪 
سپر پاور کی ٹانگیں اوپر۔۔

Wednesday, January 2, 2019

( واپس آؤ اسلام کی طرف ) ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں گشت کررہی تھی کہ ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔ پوچھا لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟ جواب آیا:


( واپس آؤ اسلام کی طرف )
ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں 
گشت کررہی تھی کہ
ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔
پوچھا لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟
جواب آیا:
ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔ 
اس نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ 
عالم کو تاتاری شہزادی کے سامنے لا کر حاضر کیا گیا۔
شہزادی
مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی: 
کیا تم لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے؟
عالم: 
یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں
شہزادی:
کیا تمہارا ایمان نہیں کہ 
اللہ جسے چاہے غالب کرتا ہے؟
عالم: 
یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
شہزادی: 
تو کیا اللہ نے آج ہمیں 
تم لوگوں پر غالب نہیں کردیا ہے؟
عالم: 
یقیناً کردیا ہے-
شہزادی: 
تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ 
خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
عالم: 
نہیں
شہزادی: 
کیسے؟
عالم: 
تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
شہزادی:
ہاں دیکھا ہے
عالم:
کیا اس ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے 
اپنے کچھ کتے رکھے ہوتے ہیں؟
شہزادی: 
ہاں رکھے ہوتے ہیں۔
عالم:
اچھا تو اگر کچھ بھیڑیں چرواہے کو 
چھوڑ کر کسی دوسری طرف کو نکل کھڑی ہوں،
اور چرواہے کی سن کر واپس آنے کو تیار ہی نہ ہوں،
تو چرواہا کیا کرتا ہے؟
شہزادی:
وہ ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتا ہے 
تاکہ وہ ان کو واپس اس کی کمان میں لے آئیں۔
عالم: 
وہ کتے کب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں؟
شہزادی:
جب تک وہ فرار رہیں اور چرواہے کے
اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔
عالم نے کہا :
تم تاتاری لوگ زمین میں ہم مسلمانوں کے
حق میں خدا کے چھوڑے ہوئے کتے ہو
جب تک ہم خدا کے در سے بھاگے رہیں گے
اور اس کی اطاعت اور اس کے منہج پر نہیں آجائیں گے، تب تک خدا تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا، 
اور ھماری گردنوں پر مسلط رکھے گا 
جب ہم خدا کے در پر واپس آجائیں گے 
اُس دن تمہارا کام ختم ہوجائے گا۔
آج پھر وہی حال ہے 
آج کتے ہم پر مسلط ہیں
یہودیوں عیساٸیوں، مشرکوں، ملحدوں اور لبرل کی صورت میں
اور جب تک ہم واپس نہ آجاٸیں اسلام کی طرف
تب تک ہم پر مسلط رہیں گے۔۔۔

عورت کا تحفظ حجاب میں اور خوبصورتی حیاء میں ہے ارشاد ربانی ہے ’’اے نبی ﷺ اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں کو اورمومنوں کی عورتوں کو فرما دے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لیا کریں یہ قریب تر ہے ہے کہ انکی پہچان ہو جائے اور اﷲ بخشنے والا نہایت مہربان ہے”( سورۃ احزاب) عورت کے معنی چھپی ہوئی چیز کے ہیں۔عورت چونکہ ایک ڈھکی چھپی چیز ہے اور اس کو جتناچھپاؤ گے اتنی ہی اسکی عزت بنے گی، اتناہی اسکے وقار میں اضافہ ہو گا ۔



عورت کا تحفظ حجاب میں اور خوبصورتی حیاء میں ہے

ارشاد ربانی ہے
’’اے نبی ﷺ اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں کو اورمومنوں کی عورتوں کو فرما دے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لیا کریں یہ قریب تر ہے ہے کہ انکی پہچان ہو جائے اور اﷲ بخشنے والا نہایت مہربان ہے”( سورۃ احزاب)

عورت کے معنی چھپی ہوئی چیز کے ہیں۔عورت چونکہ ایک ڈھکی چھپی چیز ہے اور اس کو جتناچھپاؤ گے اتنی ہی اسکی عزت بنے گی،
اتناہی اسکے وقار میں اضافہ ہو گا ۔

عورت جب تک چھپی رہے گی اسکی معصومیت اور حسن برقرار رہے گا۔ ڈھکی ہوئی چیز ہر ایک کو اچھی لگتی ہے۔

*عورت کی مثال*

ایک مرتبہ ایک بزرگ نے ایک محفل میں اپنی بند ہتھیلی کوسب کی طرف کر کے دریافت فرمایا میرے ہاتھ میں کیا ہے۔؟

کچھ نے جواب دیا شائد آپ کے ہاتھ میں ہیرے جواہیرات ہیں،

پھر ایک صاحب سے پوچھا انہوں نے بھی کچھ سوچ کے بعد جواب دیا :- شائد سونا ہے۔

پھر پوچھنے پر ایک نے جواب دیا کہ آپ کے ہاتھ میں اگر ہیرے جواہیرات نہیں اور سونا بھی تو یقینا چاندی یا کوئی قیمتی چیز ہوگی۔

تب ان بزرگ نے اپنے ہاتھ کو کھولا تو ان کے ہاتھ پر چند کنکریا تھی سب حیران رہ گئے۔

*حاصل کلام:- عورت کی مثال اس بند مٹھی کی طرح کی اگر وہ بند ہے (یعنی باپردہ) ہے تو ہیرے جواہیرات، سونا چاندی اور اس کی بیش بہا قیمت ہے لیکن اگر وہ مٹھی کی طرح کھل جائے ( بے پردہ ہوجائے ) تو وہ بے وقعت پتھر اور کنکریوں کی مانند ہے جس کی کوئی عزت اور قیمت نہیں​۔*

جیسے ڈھکی ہوئی چیز کھلتی ہے تو اسکا حسن ماند پڑنے لگ جاتا ہے۔ اس لیے اسلام نے عورت کو پردے کا حکم دیا ہے تاکہ لوگ اسکی عزت کریں۔

اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور معاشرے میں عورت کا وقار قائم رہے۔
کائنات کے رنگوں کو عورت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
بیٹی کی صورت میں گھر کی چہکار ،
بہن کی صورت میں گھر کی رونق ،
بیوی کی صورت میں سکون ,,
اور ماں کی صورت میں خالص محبت ہے لیکن اب ہم نے ان باتوں کو بھلا دیا ہے۔
عورت جس کا نام ہی پردہ ہے۔ آج وہ اپنا حجاب بھول کر فیشن میں کھو گئی ہے۔ بے پردگی کو اپنا عروج ماننے لگی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ہم نے بے پردگی کو اپنا کر نہ صرف مغربی تہذیبوں کو فروغ دیا ہے بلکہ حجاب کے تقدس کو پامال کیا ہے اور وقار نسواں کو بھی مجروح کیا ہے۔
جب عورت پردے میں ہوتی ہے تو دیکھنے والے کی نگاہیں خود بخود ہی احترام میں جھک جاتی ہیں۔
عورت پردہ کر کے اپنا احترام خود کرواتی ہے۔ بے پردہ چیز کو تو ہر کوئی دیکھے گا ۔اس لیے اسلام میں عورت کو پردے کا سختی سے حکم ہے

ایک مضبوط اور پاکیزہ معاشرہ کی بنیاد ایک مضبوط و پاکیزہ خاندان ہے ، اور ان دونوں معاشرہ و خاندان کی پاکیزگی و پاکدامنی کی سب سے اہم بنیاد عورت ہے۔
عورت کی عزت، اس کا وقار، اس کی سربلندی ہی معاشرہ کی ترقی کا ضامن ہے۔
کسی قوم و معاشرہ کیلئے عورت ہی کُل سرمایہ ہوتی ہے۔
اگر عورت پاکیزہ و پاکدامن ہوتو یقینا وہ پورا معاشرہ بھی پاکیزہ و پاکدامن ہو گا۔ا

#حیاء

حیا اللہ تعالی کی صفت ہے، اس کا ذکر کتاب و سنت میں موجود ہے، حیا تمام تر اخلاقی اقدار کا سرچشمہ ہے،
حیا انسان کو برائی سے روکتی ہے اور اچھے کاموں کی ترغیب دلاتی ہے،
حیا ان اخلاقی اقدار میں شامل ہے جو اولین زمانۂ نبوت سے معتبر اور مطلوب ہیں،
حیا سے اشرف المخلوقات سمیت فرشتے بھی موصوف ہیں، آدم، نوح، موسی سمیت تمام کے تمام انبیائے علیہم السلام حیا سے آراستہ تھے.

ہمارے نبی ﷺ سب سے زیادہ با حیا تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے فرشتے بھی حیا کرتے تھے،
حیا خواتین کا فطری زیور اور زینت ہے، اسی لیے سیدہ عائشہ اور دیگر صحابیات حیا کی پیکر تھیں،

نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق حیا سرتا پا خیر ہی خیر ہے، حیا کی وجہ سے ہمیشہ خیر ہی برآمد ہوتی ہے،
حیا کی بدولت انسان اچھے اخلاق کا عادی بن جاتا ہے، حیا چھن جائے تو یہ ایمان چھن جانے کی علامت ہوتی ہے، اور جب حیا ہی نہ رہے تو انسان جو چاہے کرتا جائے.

اگر انسان گناہ کرے تو اس سے حیا میں کمی آ جاتی ہے، حیا کسی بھی چیز میں پائی جائے تو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے،

جو شخص اللہ تعالی سے حیا کرے تو اللہ تعالی بھی اس کی لاج رکھ لیتا ہے،
حیا کا اعلی ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی سے حیا کرے، حیا ایک نور ہے جو انسان کو خلوت و جلوت میں استقامت پر مجبور کرتا ہے،
دل میں حیا پختہ کرنے کیلیے اللہ تعالی کی نعمتوں اور احسانات کو یاد کریں اور اس کے مقابلے میں اپنی کارستانیوں کو مد نظر رکھیں۔