Monday, December 24, 2018

#غیر مسلم کی تہواروں جیسے کرسمس ہولی، دیوالی، جشنِ نوروز وغیرہ کی مبارک باد کا شرعی حکم...! اقلیتوں سے اچھے سلوک کا حکم تعامل اور ان کے ساتھ معاشرے میں رہن سہن کے طور طریقہ شریعت میں واضح ہیں تالیف قلب یا انکی خوشیوں میں شرکت کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ انکے مذہبی تہواروں میں شرکت شروع کر دی جائے - یہ اچھا سلوک پورے سال علاوہ انکے تہواروں کے جاری رکھیں- ارشاد باری تعالیٰ ہے :گناہ کی مجلس میں شامل نہ ہو "اور حدیث مباركہ ھے.."الله كے دشمنوں سے انکے تہوار میں اجتناب کرو.. غیر مسلموں کے تہوار کے دن انکی عبادت گاھوں میں داخل نہ ھو کیونکہ ان پر الله کی ناراضگی نازل ھوتی ھے.."(بيهقی9/392)


#غیر مسلم کی تہواروں جیسے کرسمس ہولی، دیوالی، جشنِ نوروز وغیرہ کی مبارک باد کا شرعی حکم...!
اقلیتوں سے اچھے سلوک کا حکم تعامل اور ان کے ساتھ معاشرے میں رہن سہن کے طور طریقہ شریعت میں واضح ہیں تالیف قلب یا انکی خوشیوں میں شرکت کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ انکے مذہبی تہواروں میں شرکت شروع کر دی جائے - یہ اچھا سلوک پورے سال علاوہ انکے تہواروں کے جاری رکھیں-
ارشاد باری تعالیٰ ہے :گناہ کی مجلس میں شامل نہ ہو "اور
حدیث مباركہ ھے.."الله كے دشمنوں سے انکے تہوار میں اجتناب کرو.. غیر مسلموں کے تہوار کے دن انکی عبادت گاھوں میں داخل نہ ھو کیونکہ ان پر الله کی ناراضگی نازل ھوتی ھے.."(بيهقی9/392)
اسلام غیر مسلموں سے رواداری اور حسن سلوک کی تلقین کرتا ھے.. دین اسلام ھی وہ واحد مذھب ھے جو حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان کی تلقین کرتا ھے.. اگر کوئی مسلمان حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان نہ رکھے تو وہ مسلمان نہیں ھو سکتا لیکن جس عمل سے عقیدے اور ایمان پر زد پڑتی ھو اس سے اجتناب ضروری ھے.. کچھ"روشن خیال"لوگ عیسائیوں کو کرسمس کی مبارک باد دیتے ھیں لیکن کرسمس کی'خوشیوں'میں شریک ھونا اور اِس کفریہ شعار اور عیدوں پر عیسائیوں کو مبارکباد پیش کرنا اور تہنیتی پیغام دینا بالاتفاق حرام ھے کیونکہ عیسائیوں کا کرسمس خالصتاً ایک کافرانہ تہوار ھے.. یہ اُس کفریہ ملت کی ایک باقاعدہ پہچان اور شعار ھے جو حضرت عیسیٰ عليہ السلام کو "خدا کا بیٹا" کہہ کر پروردگارِ عالم کے ساتھ شرک کرتی ھے.. نیز نبی آخر الزمان حضرت محمدٌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسترد کرکے وقت کی "آسمانی رسالت" کی منکر اور عذابِ الٰہی کی طلبگار ٹھہرتی ھے.. کرسمس کے اِس شرکیہ تہوار کی وجہِ مناسبت ھی یہ ھے کہ ان کے بقول اس دن"خدا کا بیٹا یسوع مسیح پیدا ھوا تھا"
ارشاد ربانی ہے :
کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاہِہِمْ إِن یَقُولُونَ إِلَّا کَذِبا.."
ترجمہ :بہت بڑی بات ھے جو ان کے منہ سے نکلتی ھے.. نہیں بولتے یہ مگر بہتان.."(الکہف:۵)
مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایک ایسی قوم کو جو (معاذ اللہ)"خدا کے ھاں بیٹے کی پیدائش"پر جشن منا رھی ھو'مبارکباد پیش کرنے جائے اور اِس ’"خوشی"میں اُس کے ساتھ کسی بھی انداز اور کسی بھی حیثیت میں شریک ھو.. یہ عمل بالاتفاق حرام ھے بلکہ توحید کی بنیادوں کو مسمار کر دینے کا موجب ھے- کیونکہ اللہ سبحان و تعالٰی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں :
"کہو.. وہ اللہ یکتا ھے.. الله سب سے بے نیاز ھے.. نہ وہ کسی کا باپ ھے اور نہ وہ کسی کا بیٹا ھے اور نہ ھی کوئی اس کا ھمسر ھے..''(سورہ الاخلاص)
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں
"شعائر کفر سے متعلقہ کاموں پر مبارکباد دینا بالاتفاق علماء حرام ہے ۔ جیسے تہواروں یا ان کے روزے کے دن انہیں یہ کہنا :" آپ کو عید مبارک ہو"۔ یا اس طرح دیگر تہواروں کو مبارکباد دینے والے کلمات کہنا، اس کی مثال ایسی ہے جیسے انہیں صلیب کو سجدہ کرنے پر مبارکباد دی جائے ، یہ تو اللہ کے نزدیک کسی کو شراب پینے ، ناحق قتل کرنے اور زنا کرنے جیسے گناہوں پر مبارکباد دینے سے بھی زیادہ برا گناہ ہے اور اس کی ناراضگی کا باعث ہے ۔
ان تہواروں پر مبارکباد دینے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کے پاس دین کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی ، اور انہیں اپنے اس فعل کی قباحت کا علم نہیں ہوتا ہے ، پس جس کسی نے کسی کو کسی بدعت یا نافرمانی یا کفر کرنے پر مبارکباد دی تو وہ اللہ کے غضب اور اس کے عذاب مستحق ٹھہرا"۔
(احکام اھل الذمۃ : 441/442-1
۔
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﻮ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺗﮩﻮﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺎﺭﮐﺒﺎ ﺩ ﺩﯾﻨﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺣﺮﻣﺖ ﮐﯽ ﺷﺪﺕ ﺍﺑﻦ ﻗﯿﻢ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﺩﯼ ﮨﮯ، - ﺣﺮﺍﻡ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﮯ ﮐﻔﺮﯾﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﮧ ﻓﺮﻣﺎﻥِ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﮯ :
{ ﺇﻥ ﺗﻜﻔﺮﻭﺍ ﻓﺈﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻏﻨﻲ ﻋﻨﻜﻢ ﻭﻻ ﻳﺮﺿﻰ ﻟﻌﺒﺎﺩﻩ ﺍﻟﻜﻔﺮ ﻭﺇﻥ ﺗﺸﻜﺮﻭﺍ ﻳﺮﺿﻪ ﻟﻜﻢ }
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﮐﻔﺮ ﮐﺮﻭ ﺗﻮ ﺑﯿﺸﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ‏( ﺣﻘﯿﻘﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ‏) ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﻔﺮ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺍﺳﮑﺎ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻭ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﻋﻤﻞ ﮨﮯ -
اس کے علاوہ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﮩﻮﺍﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﺒﺎﺭﮐﺒﺎﺩ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺍﺳﮑﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﻨﮕﮯ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺗﮩﻮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺗﮩﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺗﮩﻮﺍﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮑﮯ ﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﭘﺮ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﮐﻮ ﻣﻨﺴﻮﺥ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
{ ﻭﻣﻦ ﻳﺒﺘﻎ ﻏﻴﺮ ﺍﻹﺳﻼﻡ ﺩﻳﻨﺎً ﻓﻠﻦ ﻳﻘﺒﻞ ﻣﻨﻪ ﻭﻫﻮ ﻓﻲ ﺍﻵﺧﺮﺓ ﻣﻦ ﺍﻟﺨﺎﺳﺮﻳﻦ }
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﯾﻦ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﯾﮕﺎ ؛ ﺍﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ، ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺧﺴﺎﺭﮦ ﭘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺗﻘﺎﺭﯾﺐ ﭘﺮ ﺍﻧﮑﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻧﮑﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﻣﺒﺎﺭﮐﺒﺎﺩ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﺍ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ۔
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺗﮩﻮﺍﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﮐﻔﺎﺭ ﺳﮯ ﻣﺸﺎﺑﮩﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻘﺎﺭﯾﺐ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﺮﯾﮟ، ﯾﺎ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﮐﺎ ﺗﺒﺎﺩﻟﮧ ﮐﺮﯾﮟ، ﯾﺎ ﻣﭩﮭﺎﺋﯿﺎﮞ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮﯾﮟ، ﯾﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮈﺷﯿﮟ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ، جیسے کیک وغیرہ ﯾﺎ ﻋﺎﻡ ﺗﻌﻄﯿﻞ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﺮﯾﮟ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﮨﮯ :
"من تشبه بقوم فهو منهم
ترجمہ :‏ ﺟﻮ ﺟﺲ ﻗﻮﻡ ﮐﯽ ﻣﺸﺎﺑﮩﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﯾﮕﺎ ﻭﮦ ﺍُﻧﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ ‏۔"
ﺷﯿﺦ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﺍﺑﻦ ﺗﯿﻤﯿﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ‏( ﺍﻗﺘﻀﺎﺀ ﺍﻟﺼﺮﺍﻁ ﺍﻟﻤﺴﺘﻘﻴﻢ، ﻣﺨﺎﻟﻔﺔ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺍﻟﺠﺤﻴﻢ ‏) ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ :
" ﮐﻔﺎﺭ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﺍﯾﮏ ﺗﮩﻮﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻣﺸﺎﺑﮩﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍُﻧﮑﮯ ﺑﺎﻃﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺮﺕ ﮐﯽ ﻟﮩﺮ ﺩﻭﮌ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ،ﺍﻭﺭ ﺑﺴﺎ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﺻﺖ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮭﺴﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ " ﺍﻧﺘﮩﯽ ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﺑﺎﻻ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎﻭﮦ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﮨﮯ، ﭼﺎﮨﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﺎﻣﻠﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ، ﯾﺎ ﺩﻟﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ، ﯾﺎ ﺣﯿﺎﺀ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﺒﺐ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ، ﺍﺳﮑﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﻦ ﺍﻟﮩﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﻼﻭﺟﮧ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﮐﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻧﻔﺴﯿﺎﺗﯽ ﻗﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻨﯽ ﻓﺨﺮ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻨﺎ ﮨﮯ۔
‏( ﻣﺠﻤﻮﻉ ﻓﺘﺎﻭﻯ ﻭﺭﺳﺎﺋﻞ ﺷﻴﺦ ﺍﺑﻦ ﻋﺜﻴﻤﻴﻦ 3/369 ‏)
حضرت عمر فاروق کی غیرت دینی اور اہل ذمہ سے تعامل بھی ملاحظہ کریں:
" قال عمر رضي الله عنه: إياكم ورطانة الأعاجم، وأن تدخلوا على المشركين يوم عيدهم في كنائسهم فإن السخطة تتنزل عليهم. رواه أبو الشيخ الأصبهاني والبيهقي
بإسناد صحيح
" عجمیوں کے اسلوب اور لہجے مت سیکھو۔ اور مشرکین کے ہاں اُن کے گرجوں میں ان کی عید کے دن ان پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے"
گویا غیرت دینی کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس دن کفریہ تہوار کی جگہوں پر جانا بھی جائز نہیں
بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں کافروں کو سر عام کافرانہ جشن کی سربازار,شتر بے مہار اجازت دینا ہی درست نہیں اور یہ بات سخت محل نظر ہے-
(البتہ انکے مخصوص عبادت خانوں اور گھروں میں اجازت دی جائے گی )
علاوہ ازیں کفار کے تہوار میں شرکت اور مبارکباد کی ممانعت پر حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ سب متفق ہیں
(فقہ حنفی: البحر الرائق لابن نجیم ج ۸، ص ۵۵۵،
فقہ مالکی: المدخل لابن حاج المالکی ج ۲ ص۴۶۔۴۸،
فقہ شافعی:مغنی المحتاج للشربینی ج ۴ ص ۱۹۱، الفتاویٰ الکبریٰ لابن حجر الہیتمی ج ۴ ص ۲۳۸۔۲۳۹،
فقہ حنبلی:کشف القناع للبہوتی ج ۳ ص ۱۳۱)۔
فقہائے مالکیہ تو اس حد تک گئے ہیں کہ جو آدمی کفر کے تہوار پر ایک تربوز کاٹ دے وہ ایسا ہی ہے گویا اُس نے خنزیر ذبح کر دیا۔ (اقتضاء الصراط المستقیم ص ۳۵۴)
میرے پیارے بھائیوں ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ذیادہ خوش اخلاق کون ہوسکتا ہے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی اور مدنی زندگی میں کبھی ایسے کیا... ؟؟؟
کرسمس‘‘ ایسے معلوم شعائرِ کفر سے دور رہنا تو فرض ہے ہی، ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان اس ملتِ کفر سے کامل بیزاری کرے۔کرسمس‘‘ ایسے معروف نصرانی تہوار کو محض ایک ’سماجی تہوار‘ کہہ کر اس کے لئے جواز پیدا کرنا گمرا کن ہے جواز کے یہ سارے فتوے صرف دور زوال کی یادگار ہیں ,یہ اخلاق نہیں بلکہ مداہنت کا مظہر ہیں-
چنانچہ کفار کے مذہبی تہواروں میں شامل ہونا انکے تہواروں کواچھا سمجھنااور انہیں مبارک باد دیناجیسے اعمال اسلام کو گرانے کے مترادف ہےانکے کفریہ عقائد کی تائید ایک مسلمان کے لئے کفر کے زمرے میں آتا ہے-اسلئے ایسے تمام باطل کافرانہ افعال میں شامل ہونے سے پرہیز کریں-
حسن اخلاق، رواداری اور تقسطوا الیہم پر عمل کے لیے باقی سارا سال پڑاہے-

No comments:

Post a Comment