سستی انٹرٹینمنٹ۔
(صرف بالغوں کےلیے)
دیکھیں جی مجھے تو قطعی اعتراض نہیں اس طرح کی آزادی پر مگر صرف کچھ مخصوص طرح کی عورتوں کےلیے۔ میرا نہیں خیال کہ آپ کو بھی اعتراض ہو گا اگر ماروی سرمد، بینا سرور یا حنا جیلانی اسی حالت میں عورت کی آزادی کےلیے اسلام آباد کی سڑکوں پہ جدوجہد کریں جیسے پیرس کی سڑکوں پر تصویر میں نظر آنے والی خواتین کر رہی ہیں۔
اب ایسی بھی کیا منافقت کہ جو اندر ہو وہ باہر نہ آئے، ان کے اندر باہر برہنگی ہی برہنگی تو کیا مصیبت ہے اگر یہ اس کا اظہار کر دیں تو؟ برہنگی دراصل عورت کی آزادی ہے لہٰذا عاصمہ جہانگیر کی تمام روحانی اولادوں کو برہنہ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بڑے منافقت لوگ ہیں خود کبھی ننگے نہیں ہوں گے البتہ دوسری عورتوں کی برہنگی کےلیے بہ طورِ خاص تبلیغ کرتی دکھائی دیں گی۔ دیکھیں نا، ساری زندگی عاصمہ جہانگیر پردے کی مخالفت کرتی رہی۔ جب مری تو ان لوگوں نے کفن پہنا کر دفنائی۔ حالانکہ وہ پردے کی مخالف تھی لہٰذا عاصمہ جہانگیر کے فالورز کو یقینا اسے بے پردہ یعنی ننگا دفن کرنا چاہیے تھا۔ مگر نہیں یہاں بھی منافقت۔
کل کے عورت مارچ پر میں نے خواتین کی اکثریت کو خاموش دیکھا ہے۔ جو جلتی کُڑھتی تو رہیں مگر چپ رہیں۔ دیکھیے خواتین، یہ جو کچھ ہوا ہے یا جو کچھ آئندہ ہو گا یہ آپ کی نمائندگی کے نام پر ہوا ہے۔ اگر تو آپ انہی خواتین کو اپنا نمائندہ سمجھتی ہیں، جو اپنے پوشیدہ اعضائے رئیسہ کی تصاویر بینرز پہ لگا کر بتاتی پھر رہی ہیں کہ مجھے ماہواری آئے تو سب کو پتہ ہونا چاہیے، تو پھر تو واقعی آپ کا خاموشی رہنا بنتا ہے۔ لیکن اگر آپ میں ایسی خواتین بھی موجود ہیں جنہیں لگتا کہ ایسی خواتین کا ان کی نمائندہ کہلانا ان کی ذلت کا سبب ہے تو ضرور اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ہم مرد اگر بولیں تو اسے gender discrimination یعنی جنسی عدم امتیاز قرار دیا جائے گا لہٰذا آپ خود بولیں تو بہتر ہے۔
رہ گئی بات عورت کی اس آزادی کی جس کا مطالبہ کل گھٹیا سے بینرز اٹھائے چند نسوانیت کی علمبردار کر رہی تھیں تو اس پہ بھی مردوں کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر صرف پرائی عورتوں کےلیے۔ ایک پانے کے منہ والی لڑکی کو بینر اٹھائے دیکھا جس پہ درج تھا "میں گاڑی کا ٹائر بدل سکتی ہوں" پڑھ کے داد دی کہ واقعی عورت کے حقوق کا بہت بڑا مسئلہ تو یہ ٹائر بدل بدلنا ہی تھا۔ ایک کے بینر پہ درج تھا "ماہواری نہ ہوتی تو تم بھی نہ ہوتے تو پھر شرماتے کیوں ہو" اسے بھی پڑھ کر داد دی کہ یہ عورت کے ساتھ واقعی ظلم ہے۔ یہ خیال بھی آیا کہ "ڈلیوری نا ہوتی تو تم بھی نہ ہوتے پھر شرماتے کیوں کو" لہذا ڈلیوری بھی سرعام ہونی چاہیے۔ اور ان کے گھروں میں ٹوائلٹ کی دیواریں بھی نہیں ہونی چاہیے۔ کیوں کہ رفع حاجت بھی چھپا کر نہیں کی جانی چاہیے وہ بھی تو ایک روٹین کا کام ہے۔ ایک کے بینر پہ درج تھا "کھانا اور بستر خود گرم کر لو" سوچا یہ بھی عورت کی آزادی پہ بہت بڑا قفل ہے کہ اسے شوہر کا بستر اور کھانا گرم کرنا پڑتا ہے، کرنا تو کسی اور کا چاہیے نا۔ چند خواتین نے بینرز پہ ovary cyst کی تصاویر لگا رکھی تھیں، یعنی کہ جنسی اعضا کے زریعے عورت کی نمائندگی۔ اور انہی خواتین کو یہ دعوی بھی تھا کہ عورت sex object نہیں ہے۔
تو اگر عورت کی آزادی اور حقوق کےلیے آواز اٹھانا یہی ہے تو سچ مچ مردوں کوئی اعتراض نہیں ہے ایسی آواز اٹھانے پر۔ بھلا سستی انٹرٹینمنٹ پہ کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
تحریر: سنگین علی زادہ۔
(صرف بالغوں کےلیے)
دیکھیں جی مجھے تو قطعی اعتراض نہیں اس طرح کی آزادی پر مگر صرف کچھ مخصوص طرح کی عورتوں کےلیے۔ میرا نہیں خیال کہ آپ کو بھی اعتراض ہو گا اگر ماروی سرمد، بینا سرور یا حنا جیلانی اسی حالت میں عورت کی آزادی کےلیے اسلام آباد کی سڑکوں پہ جدوجہد کریں جیسے پیرس کی سڑکوں پر تصویر میں نظر آنے والی خواتین کر رہی ہیں۔
اب ایسی بھی کیا منافقت کہ جو اندر ہو وہ باہر نہ آئے، ان کے اندر باہر برہنگی ہی برہنگی تو کیا مصیبت ہے اگر یہ اس کا اظہار کر دیں تو؟ برہنگی دراصل عورت کی آزادی ہے لہٰذا عاصمہ جہانگیر کی تمام روحانی اولادوں کو برہنہ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بڑے منافقت لوگ ہیں خود کبھی ننگے نہیں ہوں گے البتہ دوسری عورتوں کی برہنگی کےلیے بہ طورِ خاص تبلیغ کرتی دکھائی دیں گی۔ دیکھیں نا، ساری زندگی عاصمہ جہانگیر پردے کی مخالفت کرتی رہی۔ جب مری تو ان لوگوں نے کفن پہنا کر دفنائی۔ حالانکہ وہ پردے کی مخالف تھی لہٰذا عاصمہ جہانگیر کے فالورز کو یقینا اسے بے پردہ یعنی ننگا دفن کرنا چاہیے تھا۔ مگر نہیں یہاں بھی منافقت۔
کل کے عورت مارچ پر میں نے خواتین کی اکثریت کو خاموش دیکھا ہے۔ جو جلتی کُڑھتی تو رہیں مگر چپ رہیں۔ دیکھیے خواتین، یہ جو کچھ ہوا ہے یا جو کچھ آئندہ ہو گا یہ آپ کی نمائندگی کے نام پر ہوا ہے۔ اگر تو آپ انہی خواتین کو اپنا نمائندہ سمجھتی ہیں، جو اپنے پوشیدہ اعضائے رئیسہ کی تصاویر بینرز پہ لگا کر بتاتی پھر رہی ہیں کہ مجھے ماہواری آئے تو سب کو پتہ ہونا چاہیے، تو پھر تو واقعی آپ کا خاموشی رہنا بنتا ہے۔ لیکن اگر آپ میں ایسی خواتین بھی موجود ہیں جنہیں لگتا کہ ایسی خواتین کا ان کی نمائندہ کہلانا ان کی ذلت کا سبب ہے تو ضرور اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ہم مرد اگر بولیں تو اسے gender discrimination یعنی جنسی عدم امتیاز قرار دیا جائے گا لہٰذا آپ خود بولیں تو بہتر ہے۔
رہ گئی بات عورت کی اس آزادی کی جس کا مطالبہ کل گھٹیا سے بینرز اٹھائے چند نسوانیت کی علمبردار کر رہی تھیں تو اس پہ بھی مردوں کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر صرف پرائی عورتوں کےلیے۔ ایک پانے کے منہ والی لڑکی کو بینر اٹھائے دیکھا جس پہ درج تھا "میں گاڑی کا ٹائر بدل سکتی ہوں" پڑھ کے داد دی کہ واقعی عورت کے حقوق کا بہت بڑا مسئلہ تو یہ ٹائر بدل بدلنا ہی تھا۔ ایک کے بینر پہ درج تھا "ماہواری نہ ہوتی تو تم بھی نہ ہوتے تو پھر شرماتے کیوں ہو" اسے بھی پڑھ کر داد دی کہ یہ عورت کے ساتھ واقعی ظلم ہے۔ یہ خیال بھی آیا کہ "ڈلیوری نا ہوتی تو تم بھی نہ ہوتے پھر شرماتے کیوں کو" لہذا ڈلیوری بھی سرعام ہونی چاہیے۔ اور ان کے گھروں میں ٹوائلٹ کی دیواریں بھی نہیں ہونی چاہیے۔ کیوں کہ رفع حاجت بھی چھپا کر نہیں کی جانی چاہیے وہ بھی تو ایک روٹین کا کام ہے۔ ایک کے بینر پہ درج تھا "کھانا اور بستر خود گرم کر لو" سوچا یہ بھی عورت کی آزادی پہ بہت بڑا قفل ہے کہ اسے شوہر کا بستر اور کھانا گرم کرنا پڑتا ہے، کرنا تو کسی اور کا چاہیے نا۔ چند خواتین نے بینرز پہ ovary cyst کی تصاویر لگا رکھی تھیں، یعنی کہ جنسی اعضا کے زریعے عورت کی نمائندگی۔ اور انہی خواتین کو یہ دعوی بھی تھا کہ عورت sex object نہیں ہے۔
تو اگر عورت کی آزادی اور حقوق کےلیے آواز اٹھانا یہی ہے تو سچ مچ مردوں کوئی اعتراض نہیں ہے ایسی آواز اٹھانے پر۔ بھلا سستی انٹرٹینمنٹ پہ کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
تحریر: سنگین علی زادہ۔
No comments:
Post a Comment