::: خطرناک سازش کا حصہ نہ بنیں :::
تقریباً سب ہی لوگوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ دیوبندی مسلک کی جتنی بھی مذہبی یا سیاسی جماعتیں ہیں ، وہ سب کی سب " تبلیغی جماعت " کے ساتھ منسلک ہیں ، اور ان کا اس حوالہ سے باہم کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی ان جماعتوں نے " تبلیغی جماعت " کے کسی کام میں کبھی مداخلت کی کوشش کی ہے ، بلکہ سب ہی اس جماعت کے بارہ میں ہمیشہ سے رطب اللسان اور مؤید رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود بھی حال ہی میں مبلغِ اسلام حضرت مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کے حکومتِ وقت کے حق میں ایک ذاتی اور متنازعہ بیان کی آڑ میں بعض بدطینت لوگ موقع سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے " تبلیغی جماعت " اور " جمعیۃ علماء اسلام " کو مدِ مقابل باور کرانے کی خطرناک سازش میں ملوث ہیں ، اور اس ضمن میں وہ اکابر علماء کرام کو بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں ، ان پر تو کوئی گلہ ہی نہیں کہ ابن الوقت قسم کے لوگوں کا شیوہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنا مفاد موقع بموقع ڈھونڈتے رہتے ہیں ، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ " جمعیۃ علماء اسلام " کے بعض جذباتی کارکن بھی ان شر پسندوں کے ہاتھوں استعمال ہو کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں مصروفِ عمل ہیں ، میں ان دوستوں سے یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ " تبلیغی جماعت " اور اس کے اکابرین کے بارہ میں طعن و تشنیع سے حتی الوسع گریز کریں ، اس سے دوسروں کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان ہوگا ، دوسرے تو ایسی باتوں پر بغلیں بجائیں گے کہ ان کا مشن مفت میں کامیاب ہو گیا ۔
دوستو ! ان کے اسی پر فریب مشن کو تو ہم نے ناکام بنانا ہے ، وہ ہماری توجہ اصل مقاصد سے ہٹا کر ان بکھیڑوں میں ہمیں الجھانا چاہتے ہیں ، اس لئے اس نازک ترین موقع پر جوش کے ساتھ ہوش کے ناخن لینے کی بھی اشد ضرورت ہے ، ہماری درخشاں تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ " جمعیۃ علماء اسلام " اور " تبلیغی جماعت " کے اکابرین ہمیشہ سے باہم شِیر و شکر رہے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز ہمیشہ یکجان ہی رہیں گے ، اس لئے ہمیں اپنے منفی رویوں اور نفرتوں سے ان میں مزید دراڑیں ڈالنے کی بجائے اس خلیج کو باہم محبت و اخوت سے جلد ہی پاٹنے کی کوشش کرنی چاہئے ، یہ دونوں جماعتیں ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں ، اگر ان میں سے ایک بھی اتر گیا تو گاڑی نہیں چلے گی ، اور عالمی سامراج کا منشاء بھی یہی ہے ۔
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رح نے ایک موقع پر " جمعیۃ علماء ہند " کے سیاست میں حصہ لینے والے اکابرین کا صرف اس لئے شکریہ اداء کیا تھا کہ آپ لوگ حکومتِ وقت سے بر سرِ پیکار رہے اور انہیں اپنی طرف متوجہ رکھا ، جس کی بدولت ہمیں سہولت سے دعوت و تبلیغ کے کام کا موقع ملتا رہا ۔
اور انہوں نے ہی ایک موقع پر شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رح کے متعلق یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اگر ان سے کسی وقت سیاست کا کام چھوٹ گیا تو وہ بھی وہی کام کریں گے جو میں کر رہا ہوں اور اگر مجھ سے کبھی تبلیغ کا کام چھوٹ گیا تو میں بھی وہی کروں گا جو مولانا مدنی کر رہے ہیں ، حتی کہ انہوں نے یہ جرات مندانہ بیان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا کہ " گانگریس " کے ساتھ کام کرنے کے جواز میں کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ، بلکہ میرے لئے مولانا مدنی ہی اس کی دلیل کافی ہیں ۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رح کا یہ واقعہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ وہ قیامِ پاکستان کے بعد ایک موقع پر یہاں تشریف لائے تو اکابرینِ جمعیۃ سے انہوں نے جمعیۃ کا فارم رکنیت پُر کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا ، ان سے کہا گیا کہ آپ تو دوسرے ملک کے باشندہ ہیں ، آپ کو اس سے کیا فائدہ ہو گا ؟ تو انہوں نے اس کا بڑا ہی دلربا جواب ارشاد فرمایا کہ مجھے دنیا میں اس کا فائدہ ہو یا نہ ہو میں تو صرف اس لئے اسے پُر کرنا چاہتا ہوں کہ کل قیامت کے دن میں خدا کی بارگاہ میں یہ فارم دکھا سکوں کہ میرا تعلق بھی مولانا احمد علی لاہوری رح اور ان کی جماعت کے ساتھ تھا ۔
آج جناب خورشید ندیم صاحب کا کالم پڑھ کر نہایت ہی افسوس ہوا کہ انہوں نے بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ موجودہ تنازعہ کی آڑ میں انہوں نے بھی مولانا محمد زکریا رح کو غیر محسوس طریقہ سے حکومتِ وقت سے ڈر جانے والا یعنی بزدل اور ڈرپوک ظاہر کرنے کی جسارت کی ہے ، اگر انہوں نے مولانا محمد زکریا رح کی کتب کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا ہوتا تو شاید وہ ایسا کبھی نہ لکھتے ، اور انہیں پتہ چلتا کہ انہوں نے حنفیت اور دیوبندیت کا کتنا دلیرانہ و جرات مندانہ دفاع کیا ہے اور پھر اپنی عملی زندگی میں بھی انہوں نے اپنے دور کے سیاسی علماء سے کتنا گہرا قلبی تعلق رکھا ہے ، ان کی جتنی بے تکلفی حضرت مدنی رح سے تھی شاید ہی کسی اور سے ہو ۔
وہ جب حدیث کی عربی شرح لکھنے لگے تھے تو تبلیغی جماعت کے امیر حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رح نے ان سے فرمایا تھا کہ حنفی مسلک کو اس میں ڈھیلا نہ لکھنا ، ذرا ٹائٹ کر کے لکھنا ، چنانچہ ان کی یہ شرح ایک قابلِ قدر شرح ہے ، جس سے روئے زمین کے علماء و صلحاء رہتی دنیا تک استفادہ کرتے رہیں گے ۔
آپ کو ایک بڑی ہی دلچسپ اور معلوماتی بات بتاؤں کہ ہمارے استاد الاستاد حضرت مولانا مفتی عبد الواحد سہالوی رح بیک وقت گوجرانوالہ میں " تبلیغی جماعت " اور " جمعیۃ علماء اسلام " دونوں جماعتوں کے امیر رہے ہیں ، اس لئے
- کون کہتا ہے کہ ہم میں ، تم میں جدائی ہوگی
یہ ہَوائی بھی کسی دشمن نے ہی اڑائی ہوگی
صوبہ بلوچستان ، خیبر پختونخواہ اور سندھ کے بیشر لوگ اب بھی بیک وقت دونوں جماعتوں میں کام کر رہے ہیں ، اگر وہ جماعت کے ساتھ وقت لگاتے ہیں تو الیکشن میں جمعیۃ کو ووٹ بھی دیتے ہیں ، یہ باہمی محبتوں اور الفتوں کا ایک تاریخی اور مربوط تسلسل ہے ، موجودہ دور میں بھی تبلیغی جماعت کے حال ہی میں وفات پانے والے امیر حاجی عبد الوہاب رح اور دیگر اکابر کا تعلق و ربط قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن حفظہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی سے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔
اس لئے میری تمام دیوبندی حضرات سے عموماً اور جمعیۃ علماء اسلام کے احباب سے خصوصاً درخواست ہے کہ اس تنازعہ میں باہم سر پھٹول میں وقت ضائع نہ فرمائیں بلکہ آپس میں اتفاق و اتحاد سے اپنے اصل نشانِ منزل کی طرف سبک رفتاری سے گامزن رہیں ۔
اللہ کریم ہی ہم سب کا حامی و ناصر ہو ، آمین بجاہ النبی الامین ۔
تقریباً سب ہی لوگوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ دیوبندی مسلک کی جتنی بھی مذہبی یا سیاسی جماعتیں ہیں ، وہ سب کی سب " تبلیغی جماعت " کے ساتھ منسلک ہیں ، اور ان کا اس حوالہ سے باہم کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی ان جماعتوں نے " تبلیغی جماعت " کے کسی کام میں کبھی مداخلت کی کوشش کی ہے ، بلکہ سب ہی اس جماعت کے بارہ میں ہمیشہ سے رطب اللسان اور مؤید رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود بھی حال ہی میں مبلغِ اسلام حضرت مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کے حکومتِ وقت کے حق میں ایک ذاتی اور متنازعہ بیان کی آڑ میں بعض بدطینت لوگ موقع سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے " تبلیغی جماعت " اور " جمعیۃ علماء اسلام " کو مدِ مقابل باور کرانے کی خطرناک سازش میں ملوث ہیں ، اور اس ضمن میں وہ اکابر علماء کرام کو بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں ، ان پر تو کوئی گلہ ہی نہیں کہ ابن الوقت قسم کے لوگوں کا شیوہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنا مفاد موقع بموقع ڈھونڈتے رہتے ہیں ، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ " جمعیۃ علماء اسلام " کے بعض جذباتی کارکن بھی ان شر پسندوں کے ہاتھوں استعمال ہو کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں مصروفِ عمل ہیں ، میں ان دوستوں سے یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ " تبلیغی جماعت " اور اس کے اکابرین کے بارہ میں طعن و تشنیع سے حتی الوسع گریز کریں ، اس سے دوسروں کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان ہوگا ، دوسرے تو ایسی باتوں پر بغلیں بجائیں گے کہ ان کا مشن مفت میں کامیاب ہو گیا ۔
دوستو ! ان کے اسی پر فریب مشن کو تو ہم نے ناکام بنانا ہے ، وہ ہماری توجہ اصل مقاصد سے ہٹا کر ان بکھیڑوں میں ہمیں الجھانا چاہتے ہیں ، اس لئے اس نازک ترین موقع پر جوش کے ساتھ ہوش کے ناخن لینے کی بھی اشد ضرورت ہے ، ہماری درخشاں تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ " جمعیۃ علماء اسلام " اور " تبلیغی جماعت " کے اکابرین ہمیشہ سے باہم شِیر و شکر رہے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز ہمیشہ یکجان ہی رہیں گے ، اس لئے ہمیں اپنے منفی رویوں اور نفرتوں سے ان میں مزید دراڑیں ڈالنے کی بجائے اس خلیج کو باہم محبت و اخوت سے جلد ہی پاٹنے کی کوشش کرنی چاہئے ، یہ دونوں جماعتیں ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں ، اگر ان میں سے ایک بھی اتر گیا تو گاڑی نہیں چلے گی ، اور عالمی سامراج کا منشاء بھی یہی ہے ۔
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رح نے ایک موقع پر " جمعیۃ علماء ہند " کے سیاست میں حصہ لینے والے اکابرین کا صرف اس لئے شکریہ اداء کیا تھا کہ آپ لوگ حکومتِ وقت سے بر سرِ پیکار رہے اور انہیں اپنی طرف متوجہ رکھا ، جس کی بدولت ہمیں سہولت سے دعوت و تبلیغ کے کام کا موقع ملتا رہا ۔
اور انہوں نے ہی ایک موقع پر شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رح کے متعلق یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اگر ان سے کسی وقت سیاست کا کام چھوٹ گیا تو وہ بھی وہی کام کریں گے جو میں کر رہا ہوں اور اگر مجھ سے کبھی تبلیغ کا کام چھوٹ گیا تو میں بھی وہی کروں گا جو مولانا مدنی کر رہے ہیں ، حتی کہ انہوں نے یہ جرات مندانہ بیان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا کہ " گانگریس " کے ساتھ کام کرنے کے جواز میں کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ، بلکہ میرے لئے مولانا مدنی ہی اس کی دلیل کافی ہیں ۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رح کا یہ واقعہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ وہ قیامِ پاکستان کے بعد ایک موقع پر یہاں تشریف لائے تو اکابرینِ جمعیۃ سے انہوں نے جمعیۃ کا فارم رکنیت پُر کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا ، ان سے کہا گیا کہ آپ تو دوسرے ملک کے باشندہ ہیں ، آپ کو اس سے کیا فائدہ ہو گا ؟ تو انہوں نے اس کا بڑا ہی دلربا جواب ارشاد فرمایا کہ مجھے دنیا میں اس کا فائدہ ہو یا نہ ہو میں تو صرف اس لئے اسے پُر کرنا چاہتا ہوں کہ کل قیامت کے دن میں خدا کی بارگاہ میں یہ فارم دکھا سکوں کہ میرا تعلق بھی مولانا احمد علی لاہوری رح اور ان کی جماعت کے ساتھ تھا ۔
آج جناب خورشید ندیم صاحب کا کالم پڑھ کر نہایت ہی افسوس ہوا کہ انہوں نے بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ موجودہ تنازعہ کی آڑ میں انہوں نے بھی مولانا محمد زکریا رح کو غیر محسوس طریقہ سے حکومتِ وقت سے ڈر جانے والا یعنی بزدل اور ڈرپوک ظاہر کرنے کی جسارت کی ہے ، اگر انہوں نے مولانا محمد زکریا رح کی کتب کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا ہوتا تو شاید وہ ایسا کبھی نہ لکھتے ، اور انہیں پتہ چلتا کہ انہوں نے حنفیت اور دیوبندیت کا کتنا دلیرانہ و جرات مندانہ دفاع کیا ہے اور پھر اپنی عملی زندگی میں بھی انہوں نے اپنے دور کے سیاسی علماء سے کتنا گہرا قلبی تعلق رکھا ہے ، ان کی جتنی بے تکلفی حضرت مدنی رح سے تھی شاید ہی کسی اور سے ہو ۔
وہ جب حدیث کی عربی شرح لکھنے لگے تھے تو تبلیغی جماعت کے امیر حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رح نے ان سے فرمایا تھا کہ حنفی مسلک کو اس میں ڈھیلا نہ لکھنا ، ذرا ٹائٹ کر کے لکھنا ، چنانچہ ان کی یہ شرح ایک قابلِ قدر شرح ہے ، جس سے روئے زمین کے علماء و صلحاء رہتی دنیا تک استفادہ کرتے رہیں گے ۔
آپ کو ایک بڑی ہی دلچسپ اور معلوماتی بات بتاؤں کہ ہمارے استاد الاستاد حضرت مولانا مفتی عبد الواحد سہالوی رح بیک وقت گوجرانوالہ میں " تبلیغی جماعت " اور " جمعیۃ علماء اسلام " دونوں جماعتوں کے امیر رہے ہیں ، اس لئے
- کون کہتا ہے کہ ہم میں ، تم میں جدائی ہوگی
یہ ہَوائی بھی کسی دشمن نے ہی اڑائی ہوگی
صوبہ بلوچستان ، خیبر پختونخواہ اور سندھ کے بیشر لوگ اب بھی بیک وقت دونوں جماعتوں میں کام کر رہے ہیں ، اگر وہ جماعت کے ساتھ وقت لگاتے ہیں تو الیکشن میں جمعیۃ کو ووٹ بھی دیتے ہیں ، یہ باہمی محبتوں اور الفتوں کا ایک تاریخی اور مربوط تسلسل ہے ، موجودہ دور میں بھی تبلیغی جماعت کے حال ہی میں وفات پانے والے امیر حاجی عبد الوہاب رح اور دیگر اکابر کا تعلق و ربط قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن حفظہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی سے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔
اس لئے میری تمام دیوبندی حضرات سے عموماً اور جمعیۃ علماء اسلام کے احباب سے خصوصاً درخواست ہے کہ اس تنازعہ میں باہم سر پھٹول میں وقت ضائع نہ فرمائیں بلکہ آپس میں اتفاق و اتحاد سے اپنے اصل نشانِ منزل کی طرف سبک رفتاری سے گامزن رہیں ۔
اللہ کریم ہی ہم سب کا حامی و ناصر ہو ، آمین بجاہ النبی الامین ۔
No comments:
Post a Comment