ماسکو امن مزاکرات......! ایمان نے ٹیکنالوجی کو شکست دے دے دی.....!
نومبر کے پہلے ہفتے میں ماسکو میں افغان امن کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں امریکہ، روس، چین، پاکستان ، بھارت اور قطر سمیت کل بارہ ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ یہ نوگیارہ کے بعد پہلا موقع تھا کہ طالبان کے نمائندوں نے کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی۔تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین حملہ آور طاقتوں کے لئے قبرستان ثابت ہوئی ہے۔ پہلے برطانیہ، پھر روس اور اب امریکی افواج کو افغانستان میں ہزیمت کا سامنا ہے۔ اس وقت افغانستان کے تقریبا ستر فیصد رقبے پر عملی طور پر طالبان کا قبضہ ہے۔ امریکہ جو کہ پوری طاقت سے حملہ آور ہوا تھا اب افغانستان سے باعزت انخلا کا متمنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب طالبان سے براہ راست مزاکرات کیے جارہے ہیں۔
تمام ممالک ان مذاکرات کے حامی ہیں ماسوائے دو کے جن میں سے ایک بھارت ہے اوردوسرا فغانستان ہے۔ ان مذاکرات میں افغان حکومت کو شامل کرنے کے بجائے چونکہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کئے جارہے ہیں اسلئے کٹھ پتلی افغان حکومت کے لئے یہ عمل قابل قبول نہیں ۔ مزید یہ کہ بھارت کے افغانستان میں مالی اور پاکستان مخالف مفادات وابستہ ہیں اسلئے بھارت بھی نہیں چاہے گا کہ امریکہ افغانستان سے نکلے اورافغانستان کی باگ دوڑ طالبان کے ہاتھ میں آئے۔ لہذا ان دونوں طاقتوں کی نظر میں ماسکو امن مذاکرات بری طرح کھٹک رہے تھے۔
"اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو ہم تمہیں پتھر کے دور میں پہنچادیں گے۔"
یہ وہ دھمکی تھی جو امریکا نے آج سے تقریباً 17سال پہلے اس وقت ملاعمر کو دی تھی جب وہ طاقت کے نشے میں مست ہوکر افغانستان پر ٹوٹ پڑا تھا اور کسی اخلاقی اصول کو ماننے یا مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کوتیار نہ تھا۔
"اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو ہم تمہیں پتھر کے دور میں پہنچادیں گے۔"
یہ وہ دھمکی تھی جو امریکا نے آج سے تقریباً 17سال پہلے اس وقت ملاعمر کو دی تھی جب وہ طاقت کے نشے میں مست ہوکر افغانستان پر ٹوٹ پڑا تھا اور کسی اخلاقی اصول کو ماننے یا مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کوتیار نہ تھا۔
لیکن آج تقریباً سترہ سال کے بعد صورت حال یہ ہے کہ وہ نکلنے کاراستہ چاہتا ہے اور اس کے لئے روس میں مذاکرات کرنے پر راضی ہوگیا ہے جبکہ کل وہ روس کو نکلنے کاراستہ دینے کے لئے فیصلے کررہا تھا۔
اس سے زیادہ عبرت انگیز بات اور کیا ہوسکتی ہے.... ؟
حال ہی میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد اور طالبان کے وفد کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ ہوا ہے۔
پشتو سے ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
اس سے زیادہ عبرت انگیز بات اور کیا ہوسکتی ہے.... ؟
حال ہی میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد اور طالبان کے وفد کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ ہوا ہے۔
پشتو سے ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
زلمے خلیل زاد :
آپ ہمیں اڈے دے دیں تو آپ کو بہت سے ملی اور مالی فوائد حاصل ہوں گے۔
آپ ہمیں اڈے دے دیں تو آپ کو بہت سے ملی اور مالی فوائد حاصل ہوں گے۔
ملافاضل:
انہی فوائد کی خاطر آپ ہمیں وہائٹ ہاوس کے قریب اڈہ دے دیں گے.. ؟
انہی فوائد کی خاطر آپ ہمیں وہائٹ ہاوس کے قریب اڈہ دے دیں گے.. ؟
زلمے:
آپ اسے تعمیر نہیں کر سکتے۔
ملاخیراللہ:
تو پھر آپ ہمیں اپنے ملک کی تعمیر کرنے دیں جب ہم اپنے ملک کو بناکر آپ کے ملک میں اڈے بنانے کے قابل ہو جائیں گے تو آپ کو بھی جگہ دے دیں گے۔
آپ اسے تعمیر نہیں کر سکتے۔
ملاخیراللہ:
تو پھر آپ ہمیں اپنے ملک کی تعمیر کرنے دیں جب ہم اپنے ملک کو بناکر آپ کے ملک میں اڈے بنانے کے قابل ہو جائیں گے تو آپ کو بھی جگہ دے دیں گے۔
زلمے:یہ تو مشکل ہے۔
ملا صاحب:" روس اور چین تو اپ کے جیسے طاقت ور ہیں۔انہیں آپ واشنگٹن میں اڈے بنانے دیں گے؟
ملا صاحب:" روس اور چین تو اپ کے جیسے طاقت ور ہیں۔انہیں آپ واشنگٹن میں اڈے بنانے دیں گے؟
اس پرگھاٹ گھاٹ کاپانی پیاہوا تجربہ کار سفارت کار زلمے خلیل زاد لاجواب ہوگیا. شنید ھے کہ اب وہ اس شرط پر آگئے ھیں کہ ھمیں جانے دو۔بس ھم پر حملہ نہ کرنا۔
طالبان کو لوگ سیاسی قیادت کااہل نہیں سمجھتے لیکن یہ مکالمہ جس قدر فی البدیہہ حاضر جوابی کا لاجواب شاہکار ہے اس کے تناظر میں دنیا کو ان کے حوالے سے اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔
طالبان کو لوگ سیاسی قیادت کااہل نہیں سمجھتے لیکن یہ مکالمہ جس قدر فی البدیہہ حاضر جوابی کا لاجواب شاہکار ہے اس کے تناظر میں دنیا کو ان کے حوالے سے اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔
No comments:
Post a Comment