#زلمے خلیل زاد....!
دہشت گردی کی جنگ کے آغاز میں “زلمے خلیل زاد” کو امریکہ نے افغانستان میں سفیر بناکر بھیجا تھا اور یہ دوسرا موقعہ ہے کہ وہ دوبارہ سفیر بنایا گیا ہے۔ اس شخص کے بارے میں قارئین کا چند حقائق کا جاننا بہت ضروری ہے۔ یہ شخص امریکہ کی اُن شخصیات میں شامل ہے جنہوں نے بُش سینئیر کے دور میں پوری دُنیا پر امریکہ قبضے کا خواب دیکھا تھا۔ چونکہ اُس وقت روس کے ٹوٹنے کے بعد کوئی دوسری ایسی طاقت نہ تھی جو امریکی اجارہ داری کو چیلنج کرسکے اس لیئے ٹونی اسمتھ کے مطابق ایک دستاویز تیار کی گئی جس کو Defence Policy Guidance (DPG) of 1992 کا نام دیا گیا۔ اس کی تیاری میں" پال ولفووٹز" اور "زلمے خلیل زاد" مرکزی کردار تھے۔
اس دستاویز یا پلان کے مطابق روس، چین یا یورپ کو کسی طرح سے بھی اس انداز میں آگے بڑھنے سے روکنا مقصود تھا کہ وہ کہیں آگے جاکر امریکی اجارہ داری کو چیلنج نہ کرسکیں۔ اس خفیہ پلان کے تخلیق کاروں نے ہی جن میں بعد میں ایک گروپ neo-cons( نیو کانز) کے نام سے مشہور ہوا، کونڈالیزا رائس (سابق امریکی وزیر خارجہ ) بھی اسی گینگ کا حصہ تھی) نے بُش جونئیر کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں مدد کی۔
دہشت گردی کی جنگ کے آغاز میں “زلمے خلیل زاد” کو امریکہ نے افغانستان میں سفیر بناکر بھیجا تھا اور یہ دوسرا موقعہ ہے کہ وہ دوبارہ سفیر بنایا گیا ہے۔ اس شخص کے بارے میں قارئین کا چند حقائق کا جاننا بہت ضروری ہے۔ یہ شخص امریکہ کی اُن شخصیات میں شامل ہے جنہوں نے بُش سینئیر کے دور میں پوری دُنیا پر امریکہ قبضے کا خواب دیکھا تھا۔ چونکہ اُس وقت روس کے ٹوٹنے کے بعد کوئی دوسری ایسی طاقت نہ تھی جو امریکی اجارہ داری کو چیلنج کرسکے اس لیئے ٹونی اسمتھ کے مطابق ایک دستاویز تیار کی گئی جس کو Defence Policy Guidance (DPG) of 1992 کا نام دیا گیا۔ اس کی تیاری میں" پال ولفووٹز" اور "زلمے خلیل زاد" مرکزی کردار تھے۔
اس دستاویز یا پلان کے مطابق روس، چین یا یورپ کو کسی طرح سے بھی اس انداز میں آگے بڑھنے سے روکنا مقصود تھا کہ وہ کہیں آگے جاکر امریکی اجارہ داری کو چیلنج نہ کرسکیں۔ اس خفیہ پلان کے تخلیق کاروں نے ہی جن میں بعد میں ایک گروپ neo-cons( نیو کانز) کے نام سے مشہور ہوا، کونڈالیزا رائس (سابق امریکی وزیر خارجہ ) بھی اسی گینگ کا حصہ تھی) نے بُش جونئیر کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں مدد کی۔
#زلمے خلیل زاد ہے کون....... ؟
امریکہ کے پاکستان اور افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی برائے مصالحت( Reconciliation) جو آج کل طالبان سے بھی مذاکرات کر رہے ہیں، گفت و شنید کے لئے ایک بار پھر پاکستان آ رہے ہیں؛ مطلب آ چکے ہیں) اس کے اسلامی نام اور پشتون ہونے سے دھوکہ کھانے کی چندا ضرورت نہیں۔ ان کو ان کے ماضی اور ان کے تجربے کی روشنی میں پرکھے کیونکہ اس طرح کے کئی ننگ وطن اور ننگ دین مغربی طاقتوں نے ہمیشہ سے ہی مُسلمانوں کے خلاف استعمال کیئے ہیں۔
یہ صاحب کون ہیں اور انکی کیا کوالیفیکیشنز ہیں ؟
اسی بات کی اہمیت کے پیش نظر یہاں ان صاحب زلمے خلیل زاد کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے -
مزار شریف کا رہنے والا 67 سالہ یہ شخص 1951 میں افغانستان میں پیدا ہوے ، پشتون ہیں ، پھر پڑھائی کی خاطر امریکن یونیورسٹی بیروت گئے اور وہاں سے آگے امریکا پہنچ گئے جہاں انہوں نے شکاگو کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی کولمبیا یونیورسٹی میں یہ پولیٹیکل سائنس کے استاد بھی رہے ہیں . انہوں نے امریکا کی دنیا پر بالادستی کے کئی ریسرچ پیپر لکھے اور امریکی انتظامیہ میں مختلف عہدوں پر کام کرنے کا وہ ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں -
وہ افغانستان اور عراق میں امریکا کے سفیر رہ چکے ہیں اور اقوام متحدہ میں بھی امریکا کے نمائندہ کے طور پر کام کر چکے ہیں . یہ یہودی محقق اور اسلام کا سخت ترین مخالف "برنارڈ لواس "کے خاص دوستوں میں شمار ہوتے ہیں، امریکا کی عراق پر چڑھائی کے زبردست حامی تھے -
آجکل یہ صدر ٹرمپ کے براۓ افغانستان پاکستان خصوصی نمائندہ ہیں-
خلیل زلمے زاد شکاگو (امریکہ) سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ہمیشہ کے لیئے امریکی نظروں میں معتبر ہوکر بہت سارے اہم عہدوں پر کام کرتا رہا۔ اسی کی آسٹریلین نژاد یہودی بیوی" شیرلی بینارڈ" بھی سیاسی تجزیہ کار ہے اس کے دو بچوں کے نام الیگزینڈر اور میکسی میلان ہیں۔ افغان روس جنگ میں یہ بھی برزنسیکی (امریکی زیرو زیرو سیون، 007) کے ساتھ افغانستان میں موجود تھا۔ روس کے ٹُوٹ جانے کے بعد یہ دوبارہ بُش سینئر کی ایڈمنسٹریشن میں آیا اور اوپر مذکورہ دستاویز تیار کی جس کا مقصد پوری دنیا پر امریکہ کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ دہشت گردی کی فراڈ جنگ کے منصوبہ کاروں میں بھی یہ شامل تھا۔ جنگ کے آغاز کے فوراً بعد ایک اور ننگ وطن اور ننگ دین حامد کرزئی کی گورنمنٹ میں اس کو امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیئے بھیجا گیا۔
#زلمے خلیل زاد کی خاصیت...!
جب تک حامد کرزئی افغانستان کا صدر رہا “زلمے” اُس کے ساتھ ملکر مسلسل پاکستان کے خلاف زہر اُگلتا رہا۔ اس کے منہ میں بیک وقت افغانی، بھارتی، امریکی اور اسرائیلی زبانیں ہیں جو دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کے آغاز سے لیکر اب تک پاکستان کو امریکی ایجنڈے کا نمبر ایک دشمن سمجھتی ہیں۔ اس کی بہت ساری تقاریر اور ویڈیو کلپس موجود ہیں جس میں یہ موصوف فرماتے ہیں کہ “پاکستان دہشت گردوں کا حمایتی اور اُنکی جنت ہے۔” مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پاکستان کو امریکہ کا صفِ اوّل کا دشمن سمجھتا ہے۔ اسی نے عراق کے اوپر امریکی فوج کشی کی راہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے سن دو ہزار تین میں مغرب نے امریکی قیادت میں عراق کو روند کررکھ دیا۔
زلمے خلیل زاد کی افغان آمد کس بات کا اشارہ کرتی ہے؟
اس ضمن میں بہت ساری باتیں قابل غور ہیں کہ دنیا ایک بار پھر پُرانی “سرد جنگ” جیسے حالات سے گُذر رہی ہے جس میں اس بار امریکی شکست دن بدن واضح ہوتی جارہی ہے۔ افغانستان میں زلمے پہلی بار امریکی آئل کمپنی UNOCAL( یونی کال) کے ایجنٹ کے طور پر امریکہ کے لیئے سینٹرل ایشیاء سے تیل نکالنے کے مشن پر آیا تھا لیکن پھر امریکی کا رُخ عراق کی طرف مُڑ گیا کیونکہ وہ آسان ٹارگٹ تھا اب سینٹرل ایشیاء ایک بار پھر دنیا کی نظروں میں اہم ہوتا جارہا ہے لیکن “بلاکس” کی بین الاقوامی سیاست میں پاکستان کا جھکاؤ چونکہ دن بدن چین اور روس کی طرف ہوتا جارہا ہے اور بھارت بھی امریکہ کے کام نہیں آسکا اس لیئے آنے والے وقت میں اس خطے میں یقیناً کُچھ نہ کُچھ ضرور ہونے جارہا ہے۔ افغانستان میں امریکی ناکامی، مُودی کی اندرونی سیاست میں ناکامی، اور عرب ممالک کا چین کی طرف جُھکاؤ امریکہ کے لیئے بہت پریشان کُن ہے۔ ایک گھاگ ڈپلومیٹ، ماہر پراپیگنڈسٹ، اور انٹیلیجنس ورکر (زلمے خلیل زاد) کی افغانستان تعیناتی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ پاکستان ایک بار پھر کسی خُفیہ امریکی منصوبہ کی زد میں آنے والا ہے۔ ٹرمپ بھی اس بات کا اعادہ کرتا نظر آتا ہے کہ “دہشت گردوں کا اُنکی پناہ گاہوں (یعنی پاکستان) تک پیچھا کیا جائے گا۔”
امریکہ کے پاکستان اور افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی برائے مصالحت( Reconciliation) جو آج کل طالبان سے بھی مذاکرات کر رہے ہیں، گفت و شنید کے لئے ایک بار پھر پاکستان آ رہے ہیں؛ مطلب آ چکے ہیں) اس کے اسلامی نام اور پشتون ہونے سے دھوکہ کھانے کی چندا ضرورت نہیں۔ ان کو ان کے ماضی اور ان کے تجربے کی روشنی میں پرکھے کیونکہ اس طرح کے کئی ننگ وطن اور ننگ دین مغربی طاقتوں نے ہمیشہ سے ہی مُسلمانوں کے خلاف استعمال کیئے ہیں۔
یہ صاحب کون ہیں اور انکی کیا کوالیفیکیشنز ہیں ؟
اسی بات کی اہمیت کے پیش نظر یہاں ان صاحب زلمے خلیل زاد کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے -
مزار شریف کا رہنے والا 67 سالہ یہ شخص 1951 میں افغانستان میں پیدا ہوے ، پشتون ہیں ، پھر پڑھائی کی خاطر امریکن یونیورسٹی بیروت گئے اور وہاں سے آگے امریکا پہنچ گئے جہاں انہوں نے شکاگو کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی کولمبیا یونیورسٹی میں یہ پولیٹیکل سائنس کے استاد بھی رہے ہیں . انہوں نے امریکا کی دنیا پر بالادستی کے کئی ریسرچ پیپر لکھے اور امریکی انتظامیہ میں مختلف عہدوں پر کام کرنے کا وہ ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں -
وہ افغانستان اور عراق میں امریکا کے سفیر رہ چکے ہیں اور اقوام متحدہ میں بھی امریکا کے نمائندہ کے طور پر کام کر چکے ہیں . یہ یہودی محقق اور اسلام کا سخت ترین مخالف "برنارڈ لواس "کے خاص دوستوں میں شمار ہوتے ہیں، امریکا کی عراق پر چڑھائی کے زبردست حامی تھے -
آجکل یہ صدر ٹرمپ کے براۓ افغانستان پاکستان خصوصی نمائندہ ہیں-
خلیل زلمے زاد شکاگو (امریکہ) سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ہمیشہ کے لیئے امریکی نظروں میں معتبر ہوکر بہت سارے اہم عہدوں پر کام کرتا رہا۔ اسی کی آسٹریلین نژاد یہودی بیوی" شیرلی بینارڈ" بھی سیاسی تجزیہ کار ہے اس کے دو بچوں کے نام الیگزینڈر اور میکسی میلان ہیں۔ افغان روس جنگ میں یہ بھی برزنسیکی (امریکی زیرو زیرو سیون، 007) کے ساتھ افغانستان میں موجود تھا۔ روس کے ٹُوٹ جانے کے بعد یہ دوبارہ بُش سینئر کی ایڈمنسٹریشن میں آیا اور اوپر مذکورہ دستاویز تیار کی جس کا مقصد پوری دنیا پر امریکہ کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ دہشت گردی کی فراڈ جنگ کے منصوبہ کاروں میں بھی یہ شامل تھا۔ جنگ کے آغاز کے فوراً بعد ایک اور ننگ وطن اور ننگ دین حامد کرزئی کی گورنمنٹ میں اس کو امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیئے بھیجا گیا۔
#زلمے خلیل زاد کی خاصیت...!
جب تک حامد کرزئی افغانستان کا صدر رہا “زلمے” اُس کے ساتھ ملکر مسلسل پاکستان کے خلاف زہر اُگلتا رہا۔ اس کے منہ میں بیک وقت افغانی، بھارتی، امریکی اور اسرائیلی زبانیں ہیں جو دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کے آغاز سے لیکر اب تک پاکستان کو امریکی ایجنڈے کا نمبر ایک دشمن سمجھتی ہیں۔ اس کی بہت ساری تقاریر اور ویڈیو کلپس موجود ہیں جس میں یہ موصوف فرماتے ہیں کہ “پاکستان دہشت گردوں کا حمایتی اور اُنکی جنت ہے۔” مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پاکستان کو امریکہ کا صفِ اوّل کا دشمن سمجھتا ہے۔ اسی نے عراق کے اوپر امریکی فوج کشی کی راہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے سن دو ہزار تین میں مغرب نے امریکی قیادت میں عراق کو روند کررکھ دیا۔
زلمے خلیل زاد کی افغان آمد کس بات کا اشارہ کرتی ہے؟
اس ضمن میں بہت ساری باتیں قابل غور ہیں کہ دنیا ایک بار پھر پُرانی “سرد جنگ” جیسے حالات سے گُذر رہی ہے جس میں اس بار امریکی شکست دن بدن واضح ہوتی جارہی ہے۔ افغانستان میں زلمے پہلی بار امریکی آئل کمپنی UNOCAL( یونی کال) کے ایجنٹ کے طور پر امریکہ کے لیئے سینٹرل ایشیاء سے تیل نکالنے کے مشن پر آیا تھا لیکن پھر امریکی کا رُخ عراق کی طرف مُڑ گیا کیونکہ وہ آسان ٹارگٹ تھا اب سینٹرل ایشیاء ایک بار پھر دنیا کی نظروں میں اہم ہوتا جارہا ہے لیکن “بلاکس” کی بین الاقوامی سیاست میں پاکستان کا جھکاؤ چونکہ دن بدن چین اور روس کی طرف ہوتا جارہا ہے اور بھارت بھی امریکہ کے کام نہیں آسکا اس لیئے آنے والے وقت میں اس خطے میں یقیناً کُچھ نہ کُچھ ضرور ہونے جارہا ہے۔ افغانستان میں امریکی ناکامی، مُودی کی اندرونی سیاست میں ناکامی، اور عرب ممالک کا چین کی طرف جُھکاؤ امریکہ کے لیئے بہت پریشان کُن ہے۔ ایک گھاگ ڈپلومیٹ، ماہر پراپیگنڈسٹ، اور انٹیلیجنس ورکر (زلمے خلیل زاد) کی افغانستان تعیناتی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ پاکستان ایک بار پھر کسی خُفیہ امریکی منصوبہ کی زد میں آنے والا ہے۔ ٹرمپ بھی اس بات کا اعادہ کرتا نظر آتا ہے کہ “دہشت گردوں کا اُنکی پناہ گاہوں (یعنی پاکستان) تک پیچھا کیا جائے گا۔”
No comments:
Post a Comment