پچھلے دونوں کینیڈا سے ایک دوست آئے ہوئے تھے۔ باتوں باتوں میں ان سے پوچھا کہ آپ کی آمدن پر انکم ٹیکس کتنا کٹتا ہے؟ جواب ملا: یوں سمجھ لیں کہ چالیس پینتالیس پرسنٹ تنخواہ مختلف ٹیکسوں کی مد میں کٹ جاتی ہے۔ یہی بات میں نے امریکہ، یورپ اور ملائشیا کے بارے میں بھی سنی ہے۔
دبئی میں کاروبار کرنے والے مسٹر پیٹر، جو کہ ہالینڈ سے تھے، ان سے میں نے ایک دن پوچھا کہ آپ ہالینڈ میں کیوں کاروبار نہیں کرتے؟ کہنے لگے وہاں ٹیکسز بہت زیادہ ہیں، جب کہ دبئی میں سب خرچہ ملا کر پندرہ بیس پرسنٹ بنتا ہے۔
جدید دؤر کی کارپوریٹ ورلڈ اور سرمایہ داران نظام کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ وہ، لوگوں کی خون پسینے سے کمائی جانے والی دولت کے ایک بڑے حصے پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ تصور کریں کہ ایک سو ڈالر میں سے اگر آپ کو صرف پچاس ساٹھ ڈالر معاوضہ ملے، باقی ’ویلفیئر‘ کے نام پر کاٹ لیا جائے تو آپ کیا محسوس کریں گے پھر یہ عمل، زندگی میں ایک بار نہیں، سال میں ایک بار نہیں بلکہ ہر تنخواہ ملنے پر دہرایا جاتا ہو تو اذیت و تکلیف کی انتہا کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو دن رات محنت کرکے، خون پسینہ بہا کر رزق حاصل کرتے ہیں۔
اس کے برعکس، اسلام اپنے ماننے والوں سے صرف ان کی آمدنیوں کا ڈھائی فیصد طلب کرتا ہے وہ بھی دولت کا ایک حد عبور کرنے کے بعد۔ یقین جانیں کہ اگر آج ترقی یافتہ ملکوں میں بھاری ٹیکسز دینے والےعوام کو اسلام کی صرف اس ایک خوبی کا علم ہو جائے تو لوگ دیوانہ وار کھچے چلے آئیں گے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلام اپنی تمام دیگر تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ، ایک نظام کی صورت کہیں کسی سرزمین پر موجود ہو۔ اس کے بعد ’’ڈھائی فیصد‘‘ والی بات دنیا کے انسانوں کے لیے ’’اینٹری پوائنٹ‘‘ یا ’’گیٹ وے‘‘ ثابت ہو سکتی ہے۔
دبئی میں کاروبار کرنے والے مسٹر پیٹر، جو کہ ہالینڈ سے تھے، ان سے میں نے ایک دن پوچھا کہ آپ ہالینڈ میں کیوں کاروبار نہیں کرتے؟ کہنے لگے وہاں ٹیکسز بہت زیادہ ہیں، جب کہ دبئی میں سب خرچہ ملا کر پندرہ بیس پرسنٹ بنتا ہے۔
جدید دؤر کی کارپوریٹ ورلڈ اور سرمایہ داران نظام کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ وہ، لوگوں کی خون پسینے سے کمائی جانے والی دولت کے ایک بڑے حصے پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ تصور کریں کہ ایک سو ڈالر میں سے اگر آپ کو صرف پچاس ساٹھ ڈالر معاوضہ ملے، باقی ’ویلفیئر‘ کے نام پر کاٹ لیا جائے تو آپ کیا محسوس کریں گے پھر یہ عمل، زندگی میں ایک بار نہیں، سال میں ایک بار نہیں بلکہ ہر تنخواہ ملنے پر دہرایا جاتا ہو تو اذیت و تکلیف کی انتہا کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو دن رات محنت کرکے، خون پسینہ بہا کر رزق حاصل کرتے ہیں۔
اس کے برعکس، اسلام اپنے ماننے والوں سے صرف ان کی آمدنیوں کا ڈھائی فیصد طلب کرتا ہے وہ بھی دولت کا ایک حد عبور کرنے کے بعد۔ یقین جانیں کہ اگر آج ترقی یافتہ ملکوں میں بھاری ٹیکسز دینے والےعوام کو اسلام کی صرف اس ایک خوبی کا علم ہو جائے تو لوگ دیوانہ وار کھچے چلے آئیں گے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلام اپنی تمام دیگر تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ، ایک نظام کی صورت کہیں کسی سرزمین پر موجود ہو۔ اس کے بعد ’’ڈھائی فیصد‘‘ والی بات دنیا کے انسانوں کے لیے ’’اینٹری پوائنٹ‘‘ یا ’’گیٹ وے‘‘ ثابت ہو سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment