Wednesday, November 28, 2018

#جھوٹی #پیشانی: سورۃ علق میں اللہ سبحانہ وتعالی فرماتاہے: ﴿كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعَ بِالنَّاصِيَةِ(15)نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ(16)﴾(العلق:15- 16). "ہرگز نہیں اگر یہ باز نہ آئے توہم اس کی پیشانی کو داغ دیں گے جو کہ جھوٹی اور خطاکارپیشانی ہے"۔

سورۃ علق میں اللہ سبحانہ وتعالی فرماتاہے: ﴿كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعَ بِالنَّاصِيَةِ(15)نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ(16)﴾(العلق:15- 16).
"ہرگز نہیں اگر یہ باز نہ آئے توہم اس کی پیشانی کو داغ دیں گے جو کہ جھوٹی اور خطاکارپیشانی ہے"۔
یہاں سوال یہ اٹھایا جاتا تھا کہ پیشانی کیسے جھوٹی اور خطار ہوسکتی ہے یہ بولتی نہیں تو اس کو جھوٹی کیسے کہاجائے؟
مگر سائنسی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ جب انسان جھوٹ بولنے کا ارادہ کرتاہے توفیصلہ پیشانی کے اس حصے سے صادر ہوتاہے اسی طرح غلط فیصلے بھی اس حصے سے صادر ہوتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن اور احادیث میں کئی بار پیشانی کا اور درست اور غلط فیصلوں کا ذکرہے حتی کہ گھوڑے کی پیشانی کا بھی ذکر ہے، اب جدید سائنس کے مطابق پیشانی کا یہ حصہ جھوٹ اور غلط فیصلوں کا مرکزہے۔
پروفیسر "کیٹ مور" کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے قرآن انسان کا کلام نہیں!!
اس امت کا فرعون ابو جہل اسلام کا دشمن تھا،وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے کے لیے ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن مجید میں فرماتاہے:
(کَلَّا لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ لا لَنَسْفَعًا م بِالنَّاصِیَةِ ۔ نَاصِیَةٍ کَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ )
” ہرگز نہیں ،اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے کھینچیں گے، اس پیشانی کوجو جھوٹی او رسخت خطاکارہے”
(سورہ العلق)
اس آیت میں پیشانی کا خاص طورپر ذکر کیا گیا ہے۔جس سے اس کی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے۔جدید طبی تحقیق نے مندرجہ بالا آیت کریمہ میں موجود ایک ایسے نکتے کی طرف نشاندہی کی ہے کہ جس کے متعلق ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آج میڈیکل سائنس نے ہمیں یہ معلومات فراہم کی ہیں کہ انسان کے دماغ کا اگلا حصّہ جسے Prefrontal Areaکہتے ہیں،سامنے والے حصے (پیشانی )میں واقع ہے اورجو کسی اچھے یابرے کام کے کرنے کے بارے میں سوچ بچار اور تحریک پیدا کرتاہے اور یہی حصّہ انسان کے سچ یا جھوٹ بولنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
سائنس کی کتاب میں انسانی دماغ کے متعلق لکھاہے کہ:
”اسباب ،دوراندیشی کے متعلق منصوبے اورحرکت کی طرف پیش قدمی سر کے سامنے والے حصے پیشانی میں وقوع پذیر ہوتے ہیں جس کو (Prefrontal Area)کہتے ہیں”۔
(Essentials of Anatomy and Physiology, Seeley and Otmens)
پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مور کے مطابق سائنس دان سر کے سامنے والے حصہ پیشانی کے اس فریضہ منصبی کو پچھلے ساٹھ سالوں کے دوران دریافت کرپائے ہیں۔
(The Scientific Miracles in the front of the head, Moore and Others)
مندرجہ بالا آیت ِ کریمہ میں چونکہ ذکر ابوجہل کاآیا ہے لہٰذا اسی وجہ سے یہاں پیشانی کو سخت خطارکار اور جھوٹا ہی کہا گیا۔ انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کے مطابق جد ید تحقیق نے دریافت کیا ہے کہ اگر دماغ کا یہ حصہ کسی و جہ سے ناکارہ ہو جائے تو وہ انسان اخلاقی پستی کاشکارہوجاتا ہے۔اس حصے میں نقص واقع ہونے سے انسان برے کاموں کے متعلق سوچنا شروع کر دیتاہے اور آخر کار وہ اپنے مسائل کو حل کرنے میں بھی ناکام ہو جاتا ہے۔
جھوٹ کی شروعات اسی حصے (Frontal Lobes ) کے مرکز سے ہوتی ہے۔دماغ کا یہی حصہ جھوٹ بولنے پر اکساتا ہے اور اس پر عمل کروانے کے لیے جسم کے دوسرے حصوں کو ہدایات بھی دیتا ہے۔
فکر وتدبر کی ساری صلاحیتیں اسی حصے میں ہوتی ہیں۔سر کے اسی حصہ کو ناصیہ کہا گیا ہے۔ اس کاذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث (دعا)میں بھی آیا ہے:
(اللھم انی عبد ک وابن عبدک وابن امتک ناصیتی بیدک)
”اے اللہ بے شک میں آپ کا بندہ ہوں۔ آپ کے بندے اوربندی کی اولاد ہوں،میری پیشانی آپ کے قبضہ میں ہے”
(مسند احمد)
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد ”ناصیتی بیدک”یعنی میری پیشانی آپ کے قبضے میں ہے میں اس بات کا مکمل اشارہ ملتا ہے کہ انسان یعنی اس کے دماغ کااگلا حصہ جو مغزکے دونوں ابھرے ہوئے حصوں پر مشتمل ہے،جن میں انسان کی بلند ترین عقلی وشعوری سرگرمیوں کے مراکز پائے جاتے ہیں۔یہ پیشانی اللہ جل شانہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے، وہ جس طرح چاہتاہے تصرف کرتاہے اورجس رخ پر چاہتاہے اسے ڈال دیتاہے اورجب اللہ کی مشیت ہوتی ہے وہ مغز دماغ کے دونوں ابھرے ہوئے حصوں میں پائے جانے والے جسمانی مراکز کی فکری سرگرمیوں کو نئے افکار پہنچاتاہے۔

Monday, November 26, 2018

اگر یہ بیان نہیں سنا ہے تو اس نے کچھ نہیں سنا ہے علماء کرام کی دشمن ضرور سنئے اور علماء کرام کے دوست اگے شئیر کریں

اگر یہ بیان نہیں سنا ہے تو اس نے کچھ نہیں سنا ہے 
علماء کرام کی دشمن ضرور سنئے اور علماء کرام کے دوست اگے شئیر کریں

سارہ شگفتہ لکھتی ہیں : ایک شام شاعر صاحب نے کہا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ پھر ایک روز ریستوراں میں ملاقات ہوئی۔ اُس نے کہا شادی کرو گی؟ دوسری ملاقات میں شادی طے ہو گئی۔



سارہ شگفتہ لکھتی ہیں 

ایک شام شاعر صاحب نے کہا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ پھر ایک روز ریستوراں میں ملاقات ہوئی۔ اُس نے کہا شادی کرو گی؟ دوسری ملاقات میں شادی طے ہو گئی۔
اَب قاضی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ میں نے کہا ۔ آدھی فیس تم قرض لے لو اور آدھی فیس میں قرض لیتی ہوں۔ چونکہ گھر والے شریک نہیں ہوں گے میری طرف کے گواہ بھی لیتے آنا۔
ایک دوست سے میں نے اُدھار کپڑے مانگے اور مقررہ جگہ پر پہنچی اور نکاح ہو گیا۔
قاضی صاحب نے فیس کے علاوہ میٹھائی کا ڈبہ بھی منگوالیا تو ہمارے پاس چھ روپے بچے۔
باقی جھنپڑی پہنچتے پہنچتے ، دو روپے، بچے ۔ میں لالٹین کی روشنی میں گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی تھی۔
شاعر نے کہا ، دو روپے ہوں گے، باہر میرے دوست بغیر کرائے کے بیٹھے ہیں۔ میں نے دو روپے دے دئے۔ پھر کہا ! ہمارے ہاں بیوی نوکری نہیں کرتی۔ نوکری سے بھی ہاتھ دھوئے۔
گھر میں روز تعلیم یافتہ شاعر اور نقاد آتے اور ایلیٹ کی طرح بولتے۔ کم از کم میرے خمیر میں علم کی وحشت تو تھی ہی لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی بُھوک برداشت نہ ہوتی ۔
روز گھر میں فلسفے پکتے اور ہم منطق کھاتے۔
ایک روز جھونپڑی سے بھی نکال دیئے گئے، یہ بھی پرائی تھی۔ ایک آدھا مکان کرائے پر لے لیا۔ میں چٹائی پر لیٹی دیواریں گِنا کرتی ۔
اور اپنے جہل کا اکثر شکار رہتی۔
مجھے ساتواں مہینہ ہوا۔ درد شدید تھا اور بان کا درد بھی شدید تھا ۔ عِلم کے غرور میں وہ آنکھ جھپکے بغیر چلا گیا۔ جب اور درد شدید ہوا تو مالِک مکان میری چیخیں سُنتی ہوئی آئی اور مجھے ہسپتال چھوڑ آئی ۔ میرے ہاتھ میں درد اور پانچ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ تھے۔
تھوڑی دیر کے بع لڑکا پیدا ہوا۔ سردی شدید تھی اور ایک تولیہ بھی بچے کو لپیٹنے کے لئے نہیں تھا۔
ڈاکٹر نے میرے برابر اسٹریچر پر بچے کو لِٹا دیا۔
پانچ منٹ کے لئے بچے نے آنکھیں کھولیںاور کفن کمانے چلا گیا۔
بس ! جب سے میرے جسم میں آنکھیں بھری ہوئی ہیں۔ Sister وارڈ میں مجھے لٹا گئی۔ میں نے Sister سے کہا میں گھر جانا چاہتی ہوں کیونکہ گھر میں کسی کو عِلم نہیں کہ میں کہاں ہوں ۔ اُس نے بے باکی سے مجھے دیکھا اور کہا ، تنہارے جسم میں ویسے بھی زہر پھیلنے کا کا ڈر ہے ۔ تم بستر پر رہو ۔ لیکن اب آرام تو کہیں بھی نہیں تھا۔
میرے پاس مُردہ بچہ اور پانچ رُوپے تھے۔
میں نے Sister سے کہا ، میرے لئے اب مشکل ہے ہسپتال میں رہنا۔ میرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہیں میں لے کر آتی ہوں، بھاگوں گی نہیں۔
تمہارے پاس میرا مُردہ بچہ امانت ہے، اور سیڑھیوں سے اُتر گئی۔ مجھے 105 ڈگری بُخار تھا۔ بس پر سوار ہوئی ، گھر پہنچی۔ میرے پستانوں سے دُودھ بہہ رہا تھا ۔میں دودھ گلاس میں بھر کر رکھ دیا ۔ اتنے میں شاعر اور باقی منشی حضرات تشریف لائے ۔ میں نے شاعر سے کہا ، لڑکا پیدا ہوا تھا ، مَر گیا ہے۔
اُس نے سرسری سنا اور نقادوں کو بتایا۔
کمرے میں دو منٹ خاموشی رہی اور تیسرے منٹ گفتگو شروع ہوگئی !
فرائڈ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟
راں بو کیا کہتا ہے ؟
سعدی نے کیا کہا ہے ؟
اور وارث شاہ بہت بڑا آدمی تھا ۔
یہ باتیں تو روز ہی سُنتی تھی لیکن آج لفظ کُچھ زیادہ ہی سُنائی دے رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا !
جیسے یہ سارے بڑے لوگ تھوڑی دیر کے لئے میرے لہو میں رُکے ہوں، اور راں بو اور فرائڈ میرے رحم سے میرا بچہ نوچ رہے ہوں۔ اُس روز علم میرے گھر پہلی بار آیا تھا اور میرے لہُو میں قہقہے لگا رہا تھا ۔ میرے بچے کا جنم دیکھو !!!
چنانچہ ایک گھنٹے کی گفتگو رہی اور خاموشی آنکھ لٹکائے مجھے دیکھتی رہی۔ یہ لوگ عِلم کے نالے عبُور کرتے کمرے سے جُدا ہوگئے۔
میں سیڑھیوں سے ایک چیخ کی طرح اُتری۔ اب میرے ہاتھ میں تین رُوپے تھے ۔ میں ایک دوست کے ہاں پہنچی اور تین سو روپے قرض مانگے ۔ اُس نے دے دیئے ۔ پھر اُس نے دیکھتے ہوئے کہا !
کیا تمہاری طبیعت خراب ہے ؟
میں نے کہا ، بس مجھے ذرا ا بخار ہے ، میں زیادہ دیر رُک نہیں سکتی ۔ پیسے کسی قرض خواہ کو دینے ہیں ، وہ میرا انتظار کر رہا ہوگا۔
ہسپتال پہنچی ۔ بِل 295 روپے بنا۔ اب میرے پاس پھر مُردہ بچہ اور پانچ روپے تھے۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا۔
آپ لوگ چندہ اکٹھا کر کے بچے کو کفن دیں، اور اِس کی قبر کہیں بھی بنا دیں۔ میں جارہی ہوں۔
بچے کی اصل قبر تو میرے دل میں بَن چکی تھی۔
میں پھر دوہری چیخ ےک ساتھ سیڑھیوں سے اُتری اور ننگے پیر سڑک پہ دوڑتی ہوئی بس میں سوار ہوئی۔
ڈاکٹر نے سمجھا شاید صدمے کی وجہ سے میں ذہنی توازن کھو بیٹھی ہوں۔ کنڈکٹر نے مجھ سے ٹکٹ نہیں مانگا اور لوگ بھی ایسے ہی دیکھ رہے تھے۔ میں بس سے اُتری، کنڈکٹر کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھتے ہوئے ، چل نکلی۔ گھر ؟ گھر!! گھر پہنچی۔
گلاس میں دودھ رکھا ہوا تھا۔
کفن سے بھی زیادہ اُجلا۔
میں نے اپنے دودھ کی قسم کھائی ۔ شعر میں لکھوں گی، شاعری میں کروں گی، میں شاعرہ کہلاؤں گی۔اور دودھ باسی ہونے سے پہلے ہی میں نے ایک نظم لکھ لی تھی، لیکن تیسری بات جھوٹ ہے، میں شاعرہ نہیں ہوں۔ مجھے کوئی شاعرہ نہ کہے۔ شاید میں کبھی اپنے بچے کو کفن دے سکوں۔
آج چاروں طرف سے شاعرہ! شاعرہ! کی آوازیں آتی ہیں، لیکن ابھی تک کفن کے پیسے پُورے نہیں ہوئے۔
_سارا شگفتہ

پروفیسر نے ایک married لڑکی کو کھڑا کیا اور کہا کہ آپ بلیک بورڈ پہ ایسے 25- 30 لوگوں کے نام لکھو جو تمہیں سب سے زیادہ پیارے ہوں. لڑکی نے پہلے تو اپنے خاندان کے لوگوں کے نام لکھے، پھر اپنے سگے رشتہ دار، دوستوں، پڑوسی اور ساتھیوں کے نام لکھ دیے ...


پروفیسر نے ایک married لڑکی کو کھڑا کیا
اور کہا کہ آپ بلیک بورڈ پہ ایسے 25- 30 لوگوں کے نام لکھو جو تمہیں سب سے زیادہ پیارے ہوں.
لڑکی نے پہلے تو اپنے خاندان کے لوگوں کے نام لکھے، پھر اپنے سگے رشتہ دار، دوستوں، پڑوسی اور ساتھیوں کے نام لکھ دیے ...
اب پروفیسر نے اس میں سے کوئی بھی کم پسند والے 5 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے اپنے دوستوں کے نام مٹا دیے ..
پروفیسر نے اور 5 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے تھوڑا سوچ کر اپنے پڑوسيو کے نام مٹا دیے ...
اب پروفیسر نے اور 10 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے اپنے سگے رشتہ داروں کے نام مٹا دیے ...
اب بورڈ پر صرف 4 نام بچے تھے جو اس کے ممي- پاپا، شوہر اور بچے کا نام تھا ..
اب پروفیسر نے کہا اس میں سے اور 2 نام مٹا دو ...لڑکی کشمکش میں پڑ گئی بہت سوچنے کے بعد بہت دکھی ہوتے ہوئے اس نے اپنے ممي- پاپا کا نام مٹا دیا ...
تمام لوگ دنگ رہ گئے لیکن پرسکون تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ کھیل صرف وہ لڑکی ہی نہیں کھیل رہی تھی بلکی ان کے دماغ میں بھی یہی سب چل رہا تھا.
اب صرف 2 ہی نام باقی تھے ..... شوہر اور بیٹے کا ...
پروفیسر نے کہا اور ایک نام مٹا دو ...
لڑکی اب سہمی سی رہ گئی ........ بہت سوچنے کے بعد روتے ہوئے اپنے بیٹے کا نام کاٹ دیا ...
پروفیسر نے اس لڑکی سے کہا تم اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ جاؤ ... اور سب کی طرف غور سے دیکھا ..... اور پوچھا: کیا کوئی بتا سکتا ہےکہ ایسا کیوں ہوا کہ صرف شوہر کا ہی نام بورڈ پر رہ گیا.
سب خاموش رہے .
پھر پروفیسر نے اسی لڑکی سے پوچھا کہ اسکی کیا وجہ ھے؟ 
اس نے جواب دیا کہ میرا شوہر ہی مجھے میرے ماں باپ، بہن بھائی، حتا کے اپنے بیٹے سے بھی زیادہ عزیز ھے. وہ میرے ھر دکھ سکھ کا ساتھی ھے، میں اس ھر وہ بات شیئر کر سکتی ھوں جو میں اپنے بیٹے یا کسی سے بھی شیئر نہیں کر سکتی،
میں اپنی زندگی سے اپنا نام مٹا سکتی ھوں مگر اپنے شوہر کا نام کبھی نی مٹا سکتی.
بیوی گھر کی ملکہ ھوتی ھے پاوں کی جوتی نھی،
#feelings

Sunday, November 25, 2018

Syria regime accuses armed groups of 'toxic gas' attack

Syria regime accuses armed groups of 'toxic gas' attackSyria's regime has accused armed groups of carrying out a “toxic gas” attack that left dozens of people struggling to breathe and prompted government ally Russia to launch retaliatory air strikes on Sunday.

Around 100 Syrians were hospitalised with breathing difficulties after the alleged chemical attack in the regime-held city of Aleppo on Saturday, state media and a monitor said.
Russia accused militants of being behind the alleged chlorine attack, and carried out the first air raids in months on the outskirts of a major rebel bastion west of the city.
It was the latest accusation of a chemical attack in Syria's grinding seven-year civil war, which has killed more than 360,000 people and displaced millions.
State news agency SANA reported “107 cases of breathing difficulties”, after what health official Ziad Hajj Taha said was a “probable” chlorine attack on Aleppo city.
The Syrian Observatory for Human Rights, a Britain-based monitor, said a total of 94 people were hospitalised, but most had been discharged, after “the smell of chlorine” was reported in the city.
On Saturday, an AFP photographer saw dozens of civilians, including women and children, stream into an Aleppo hospital, some on stretchers or carried in by their relatives.
The injured seemed to be dizzy and breathing with difficulty.
Staff gave them oxygen masks, through which they breathed for 15-minute sessions, either sitting or lying down.

Rebel denial

The regime controls Aleppo city, but rebels and militants are present to the west in the country's last major opposition bastion of Idlib.
On Sunday, Russian air raids hit a planned buffer zone on the edges of that stronghold, the Observatory and Moscow said.
They were the first air strikes to hit the expected demilitarised area since a September deal between Moscow and rebel backer Ankara to protect Idlib from a massive regime assault.
On Sunday, Moscow accused Hayat Tahrir al-Sham (HTS), an alliance led by militants of Syria's former Al-Qaeda affiliate, of carrying out the alleged toxic attack in Aleppo.
Russian defence ministry spokesman Igor Konashenkov on Sunday said “terrorist groups” in an area of the planned buffer zone held by HTS fired shells filled with chlorine on a residential area of Aleppo.
Official media accused “terrorists” of carrying out a “toxic gas” attack on Aleppo, using a term it uses to mean both rebels and militants.
A rebel coalition on Sunday denied any involvement.
“We at the National Liberation Front deny the criminal, lying regime's allegations that revolutionaries targeted the city of Aleppo with any missiles and especially not any containing chlorine gas,” it said.
Neither HTS nor the Al-Qaeda-linked Hurras al-Deen group, both of which are present near Aleppo, commented on the accusations.

'Pretext'

The Russia-Turkey buffer zone deal on September 17 intended to prevent a major regime attack on Idlib, which is home to some three million people.
But its implementation has stalled after militants refused to withdraw from the planned demilitarised zone on time, and sporadic shelling and clashes have rocked the area.
Syria's regime has insisted that the deal is temporary and that Idlib will eventually revert to government control.
After the alleged toxic attack, Nasr al-Hariri, who heads Syria's mainstream opposition, accused Damascus of seeking a "pretext to launch a military offensive in northern Syria".
Over the course of Syria's war, international human rights groups have repeatedly accused the regime of carrying out chemical attacks.
Last year and in April, the allegations caused the United States to carry out punitive strikes in Syria.
A joint commission of the United Nations and the Organisation for the Prohibition of Chemical Weapons (OPCW) has also accused the militant Islamic State group of using toxic gases.
The Damascus regime on Sunday called on the UN Security Council to denounce the attack.
“The Syrian government demands the UN Security Council immediately and harshly condemn these terrorist crimes,” the foreign ministry said.
Since starting with the brutal repression of anti-government protests in 2011, Syria's civil war has spiralled into a complex conflict involving world powers and militants.

ایک بادشاہ ہر وقت اپنے سر کو ڈھانپ کے رکھتا۔ اُسے کبھی کسی نے ننگے سر نہیں دیکھا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اِس راز کو جاننے کی کوشش کی لیکن بادشاہ ہر مرتبہ کمال مہارت سے بات کا رُخ موڑ کر جواب دینے سے بچ جاتا۔

ایک بادشاہ ہر وقت اپنے سر کو ڈھانپ کے رکھتا۔ اُسے کبھی کسی نے ننگے سر نہیں دیکھا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اِس راز کو جاننے کی کوشش کی لیکن بادشاہ ہر مرتبہ کمال مہارت سے بات کا رُخ موڑ کر جواب دینے سے بچ جاتا۔ایک روز اُسکے وزیرِ خاص نے بادشاہ سے اِس راز کو جاننے کی ٹھان لی، حسب سابق بادشاہ نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح وزیر کا دھیان اِدھر اُدھر ہو جائے، لیکن اُس نے بھی جاننے کا مصمم ارادہ کر رکھا تھا،آخر بادشاہ نے وزیر کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ لیکن اُسے ایک
پر بتانے کی حامی بھری کہ وہ آگے کسی کو نہیں بتائے گا۔ اور ساتھ ہی کہا کہ اگر اُس نے شرط کی خلاف ورزی کی تو اُسے سخت سزا بھگتنا ہو گی۔بادشاہ نے بتایا کہ، “اُس کے سر پر ایک سینگ ہے، اِسی لیے وہ اپنے سر کو ہمیشہ ڈھانپ کے رکھتا ہے۔۔۔!” اِس بات کو کچھ دِن ہی ہوئے تھے کہ پورے شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ بادشاہ کے سر پر سینگ ہے۔ بادشاہ کو بڑا غصہ آیا۔ اُس نے اپنے اُس وزیرِ خاص کو طلب کیا اور شرط کی خلاف ورزی کی پاداش میں شاہی حکم صادر کیا کہ اُسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔وزیر بہت سمجھدار تھا، وہ جھٹ سے بولا، “بادشاہ سلامت! جب آپ بادشاہ ہو کر خود اپنے ہی راز کو نہیں چھپا سکے تو پھر آپ مجھ سے یا کسی اور سے کیسے یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ وہ آپکے راز کو چھپا کر رکھے۔ لہٰذا جتنی سزا کا حقدار میں ہوں اُتنی آپکو بھی ملنی چاہیے۔۔۔!” میرے عزیز دوستو! زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اور کمان سے نکلا ہوا تیر جب نکلتے ہیں تو دو کام ہوتے ہیں۔
پہلا یہ کہ وہ پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آ سکتے۔ چاہے لاکھ پچھتاوے کے ہاتھ ملو۔اور دوسرا یہ کہ وہ پھر جہاں جہاں سے گزرتے ہیںاپنی شدت اور قوت کے مطابق زخم لگاتے جاتے ہیں۔ جس کا دوش ہم اپنے علاوہ کسی اور کو نہیں دے سکتے۔اِس لیے کہتے ہیں کہ جب تک الفاظ آپکے اندر رہتے ہیں، وہ آپکے غلام ہوتے ہیں۔ اور جیسے ہی وہ ادا ہو جاتے ہیں،پھر آپ اُنکےغلام بن جاتے ہو۔ اگلی پوری زندگی آپکو اپنے عمل اور کردار سے اپنے کہے ہوئے الفاظ کی پاسداری کرنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و مددگار ہو۔۔۔آمین

*جشن میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم ایک لمحہٴ فکریہ* *شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی* 12/ ربیع الاول کو عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کارواج کچھ عرصہ سے مسلسل چلا آرہا ہے


*جشن میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم ایک لمحہٴ فکریہ*
*شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی*
12/ ربیع الاول کو عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کارواج کچھ عرصہ سے مسلسل چلا آرہا ہے، چوں کہ عہد صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین اور قرون اولیٰ میں اس ”عید“ کا کوئی پتا نشان نہیں ملتا۔ اس لیے اکابر علمائے حق ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ دن منانے کی رسم ہم میں عیسائیوں اور ہندوؤں سے آئی ہے، تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ملتی، لہٰذا اس رسم کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، مسلمانوں کااصل کام یہ ہے کہ وہ ان رسمی مظاہروں کے بجائے سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں اور ایک دن میں عید میلاد مناکر فارغ ہوجانے کے بجائے اپنی پوری زندگی کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی فکر کریں۔
یہ علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث کا موقف تھا اور بریلوی مکتب فکر کے حضرات اس سے اختلاف کرتے تھے، لیکن اب چند سال سے جو صورت حال سامنے آرہی ہے، اس میں یہ مسئلہ صرف دیوبندی مکتب فکر کا نہیں رہا، بلکہ ہر اس مسلمان کا مسئلہ بن گیا ہے جو سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی عظمت و محبت اور حرمت و تقدیس کا کوئی احساس اپنے دل میں رکھتا ہو، اب صرف علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث ہی کو نہیں، بلکہ علمائے بریلی کو بھی اس پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ جشن عیدمیلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کے نام پر یہ قوم دینی تباہی کے کس گڑھے کی طرف جارہی ہے؟ کیوں کہ جن حضرات نے ابتدا میں محفل میلاد وغیرہ کو مستحسن قرار دیا تھا، ان کے چشم تصور میں بھی غالباً وہ باتیں نہیں ہوں گی جو آج ”جشن میلادالنبی صلی الله علیہ وسلم“ کا جزوِ لازم بنتی جارہی ہیں۔
شروع میں محفل میلاد کا تصور ایک ایسی مجلس کی حد تک محدود تھا جس میں سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جاتا ہو، لیکن انسان کا نفس اس قدر شریر واقع ہوا ہے کہ جو کام وحی کی راہ نمائی کے بغیر شروع کیا جاتا ہے، وہ ابتدا میں خواہ کتنا مقدس نظر آتا ہو، لیکن رفتہ رفتہ اس میں نفسانی لذت کے مواقع تلاش کرلیتا ہے اور اس کا حلیہ بگاڑ کر چھوڑتا ہے، چناں چہ اب الله کے محبوب ترین پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے مقدس نام پر جو کچھ ہونے لگا ہے، اسے سن کر پیشانی عرق عرق ہوجاتی ہے۔
ہر سال ”عید میلاد النبی“ کے نام سے صرف کراچی میں ظلم وجہالت کے ایسے ایسے شرم ناک مظاہرے کیے جاتے ہیں کہ ان کے انجام کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے، مختلف محلوں کو رنگین روشنیوں سے دلہن بنایا جاتا ہے اور شہر کے تقریباً تمام ہوٹلوں میں عید میلاد اس طرح منائی جاتی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر لگاکر بلند آواز سے شب و روز ریکارڈنگ کاطوفان برپا رہتا ہے۔ بہت سے سینما ”عیدمیلاد کی خوشی میں“ سینکڑوں بلب لگا کر ان اخلاق سوز اور برہنہ تصویروں کو اور نمایاں کردیتے ہیں جو اپنی ہر ہر ادا سے سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کے احکام کی نافرمانی کی برملا دعوت دیتی ہیں اور انہی مقامات پر انسانیت کی تصویروں کے سائے میں شاید تبرک کے خیال سے خانہ کعبہ اور روضہ اقدس کی تصویریں بھی چسپاں کردی جاتی ہیں، ایک محلہ میں قدم قدم پر روضہ اطہر اور مسجد نبوی کی شبیہیں بناکر کھڑی کی جاتی ہیں، جنہیں کچھ بے فکرے نوجوان ایک تفریح گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور کچھ بے پردہ عورتیں انہیں چھو چھوکر ”خیر و برکت“ حاصل کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ جب پورے محلہ کو روشنیوں میں نہلاکر، جگہ جگہ محرابیں کھڑی کرکے اور قدم قدم پر فلمی ریکارڈ بجاکر ایک میلے کا سماں پیدا کردیا جائے تو پھر عورتیں اور بچے ایسے میلے کو دیکھنے کے لیے کیوں نہ پہنچیں جس میں میلے کا لطف بھی ہے اور (معاذ الله) تعظیم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ثواب بھی؟! چناں چہ راتوں کو دیر تک یہاں تفریح باز مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایسا مخلوط اجتماع رہتا ہے جس میں بے پردگی، غنڈہ گردی اور بے حیائی کو کھلی چھوٹ ملی ہوتی ہے۔
راقم الحروف ایک روز اس محلے سے گزرتے ہوئے یہ دل دوز مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور اس آیت قرآنی کے تصور سے روح کانپ رہی تھی، جس کا ترجمہ یہ ہے:
” اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنارکھا ہے اور دنیاوی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال دیا ہے اور اس قرآن کے ذریعے ان کو نصیحت کرو، تاکہ کوئی شخص اپنے کیے میں اس طرح گرفتار نہ ہوجائے کہ الله کے سوا اس کا کوئی حمایتی اور سفارش کرنے والا نہ ہو اور اگر وہ دنیا بھر کا معاوضہ دے ڈالے تب بھی نہ لیا جائے، یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے کیے میں گرفتارہوئے، ان کے لیے کھولتا ہوا پانی پینے کے لیے ہوگا اور کفر کے سبب دردناک سزا ہوگی۔“
الله تعالیٰ ہر مسلمان کو اس آیت کا مصداق بننے سے محفوظ رکھے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس محلے سے گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے خاتم النبین صلی الله علیہ وسلم کا لایا ہوا دین پکار پکار کر یہ فریاد کررہا ہے کہ ”محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کے نام لیواؤ! تم گم راہی اور بے حسی کے کس اندھے غار میں جاگرے ہو؟ کیا سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ یہی ہے کہ انہی کی محبت و عظمت کے نام پر ان کی ایک ایک تعلیم کو جھٹلاؤ؟ ان کے ایک ایک حکم کی نافرمانی کرو؟ اور ان کی یاد منانے کے بہانے جاہلیت کی ان تمام رسموں کو زندہ کرکے چھوڑو جنہیں اپنے قدموں تلے روندنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تھے؟ خدا کے لیے سوچو کہ جس ذات کو سازورباب اور چنگ و بربط کے توڑنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا، اس کے ”جشن ولادت“ میں ساز ورباب سے کھیل کر تم کس غضب الٰہی کو دعوت دے رہے ہو؟ جس ذات نے عورت کے سر پر عفت و عصمت کا تاج رکھا تھا اور جس نے اس کے گلے میں عزت و آبرو کے ہارڈالے تھے، اس کی محبت و تقدیس کے نام پر تم عورت کو بے پردگی اور بے حیائی کے کس میلے میں کھینچ لائے ہو؟ جس ذات نے نام و نمود، ریا و نمائش، اسراف و تبذیر سے منع کیا تھا، یہ نمائشیں منعقد کرکے تم کس کی خوش نودی حاصل کرنا چاہتے ہو؟ اگر دین کی کوئی صحیح خدمت تم سے نہیں ہوسکتی، اگر تم اپنی عام زندگی میں الله کی نافرمانیوں کو ترک نہیں کرسکتے، اگرمحمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات تمہارے عیش پرست مزاج کوبار معلوم ہوتی ہیں، توتمہاری زندگی کے بہت سے شعبے اس عیش پرستی کے لیے کافی ہیں، خدا کے لیے الله کے محبوب ترین پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے نام پر ہوا و ہوس کا یہ بازار لگاکر اس نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کا مذاق تو نہ اڑاؤ، اس کے تقدس اور پاکیزگی کے آگے فرشتوں کی گردنیں بھی خم ہوجاتی ہیں، اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھو کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے ایک ایک حکم کی نافرمانی کرنے کے بعد تم کس چیز کی خوشی میں اپنے درودیوار پر چراغاں کررہے ہو؟ کیا تمہیں اس بات کی خوشی ہے کہ تم نے اپنی عملی زندگی میں اس دین برحق کی کوئی قدر صحیح سالم نہیں دیکھی؟“ لیکن عیش و نشاط کی گونجتی ہوئی محفلوں میں کون تھا جو دین مظلوم کی اس فریاد کو سن سکتا؟
جن لوگوں کا مقصد ہی اس قسم کے ہنگاموں سے عیش و نشاط کا سامان پیدا کرنا ہے، ان کا تو کوئی ذکر ہی نہیں، لیکن جو لوگ واقعتاً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم و محبت ہی کے خیال سے اس قسم کے جشن مناتے ہیں، وہ بھی یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ اسلام اور اکابر اسلام کو دوسرے مذاہب اور ان کے پیشواؤں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے جہاں ہمیں ان کی تعظیم اور ان کے تذکرے کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے، وہاں ہمیں اس کا طریقہ بھی بتایا ہے، یہ وہ دین حق ہے جو ہمیں دوسرے مذاہب کی طرح رسمی مظاہروں میں الجھانے کے بجائے زندگی کے اصلی مقصد کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس کے لیے یہ اکابر اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ ورنہ اگر اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ان رسمی مظاہروں کی طرح جانا جاتا تو آج ہم اس بات پر فخر محسوس نہ کرسکتے کہ ہمارا دین بفضلہ تعالیٰ اسی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اسے لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی مذہب کے پیروکار محض ظاہری رسموں اور نمائشوں میں الجھ جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ اس مذہب کی اصل تعلیمات مٹتی چلی جاتی ہیں اور بالآخر بے جان رسوم کا ایک ایسا ملغوبہ باقی رہ جاتا ہے جس کا مقصد انسانی نفسانی خواہشات کی حکم رانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور جو مادہ پرستی کی بدترین شکل ہے، ان تمام تقریبات کا اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کے ذریعہ وہ خاص شخصیت یا وہ خاص واقعہ ذہن میں تازہ ہو جس کی یاد میں وہ تقریب منعقد کی جارہی ہے اور پھر اس سے اپنی زندگی میں سبق حاصل کیا جائے، لیکن انسان کا نفس بڑا شریر واقع ہوا ہے، اس نے ان تہواروں کی اصل روح کو تو بھلا کر،نابود کردیا اور صرف وہ چیزیں لے کر بیٹھ گیا جس سے لذت اندوزی اور عیش پرستی کی راہ کھلتی تھی۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے ہوسکے گی۔
عیسائی قومیں ہر سال 25دسمبر کو کرسمس کا جشن مناتی ہیں، یہ جشن دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جشن ولادت ہے اور اس کی ابتدا اسی مقدس انداز سے ہوئی تھی کہ اس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی تعلیمات کو لوگوں میں عام کیا جائے گا، چناں چہ ابتدا میں اس کی تمام تقریبات کلیسا میں انجام پاتی تھیں اور ان میں کچھ مذہبی رسوم ادا کی جایا کرتی تھیں، رفتہ رفتہ اس جشن کا سلسلہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا؟ اس کی مختصر داستان، جشن وتقریبات کی ایک ماہر مصنفہ ہیرزلٹائن ہے، اس سے سنیے، وہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ ”کرسمس“ میں لکھتی ہیں:
”کئی صدیوں تک کرسمس خالصتاً ایک کلیسا کا تہوار تھا، جسے کچھ مذہبی رسوم ادا کرکے منایا جاتا تھا، لیکن جب عیسائی مذہب بت پرستوں کے ممالک میں پہنچا تو اس میں ”سرمانی نقطہ انقلاب“ کی بہت سی تقریبات شامل ہوگئیں اور اس کا سبب گریگوری اعظم (اول) کی آزاد خیالی اور اس کے ساتھ مبلغین عیسائیت کا تعاون تھا، اس طرح کرسمس ایک ایسا تہوار بن گیا جو بیک وقت مذہبی بھی تھا اور لادینی بھی، اس میں تقدس کا پہلو بھی تھا اور لطف اندوزی کا سامان بھی۔“
اب کرسمس کس طرح منایا جانے لگا؟ اس کو بیان کرتے ہوئے میری ہیرزلٹائن لکھتی ہیں:
”رومی لوگ اپنی عبادت گاہوں اور اپنے گھروں کو سبز جھاڑیوں اور پھولوں سے سجاتے تھے، ڈرائڈس (پرانے زمانے کے پادری) بڑے تزک و احتشام سے امربیلیں جمع کرتے اور اسے اپنے گھروں میں لٹکاتے، سیکسن قوم کے لوگ سدابہار پودے استعمال کرتے۔“
انہوں نے آگے بتایا ہے کہ:
”کس طرح شجر کرسمس( Chirstmas Tree) کا رواج چلا، چراغاں اور آتش بازی کے مشغلے اختیار کیے گئے، قربانی کی عبادت کی جگہ شاہ بلوط کے درخت نے لے لی، مذہبی نغموں کی جگہ عام خوشی کے نغمے گائے گئے اور : ”موسیقی کرسمس کا ایک عظیم جزو بن گئی۔“
مقالہ نگار آگے رقم طراز ہے:
”اگرچہ کرسمس میں زیادہ زور مذہبی پہلو پر دیا گیا تھا، لیکن عوامی جوش و خروش نے نشاط انگیزی کو اس کے ساتھ شامل کرکے چھوڑا۔“
اور پھر… ”گانا بجانا، کھیل کود، رقص، ناٹک بازی اور پریوں کے ڈرامے تقریبات کا حصہ ہوگئے۔“ (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ص، 642۔اے ج 5، مطبوعہ1950ء مقالہ “کرسمس“)
ایک طرف کرسمس کے ارتقاء کی یہ مختصر تاریخ ذہن میں رکھیے اور دوسری طرف اس طرز عمل پر غور کیجیے، جو چند سالوں سے ہم نے جشن عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کے لیے اختیار کیا ہوا ہے، کیا اس سے یہ حقیقت بے نقاب نہیں ہوتی کہ:
ایں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است
اسلام اس عالم الغیب کا مقرر کیا ہو ادین ہے جو اس کائنات کے ذرہ ذرہ سے باخبر ہے اور جس کے علم محیط کے آگے ماضی، حال اور مستقبل کی سرحدیں بے معنی ہیں، وہ انسانی نفس کی ان فریب کاریوں سے پوری طرح واقف ہے جو تقدس کا لبادہ اوڑھ کر انسانیت کو گم راہ کرتی ہیں، اس لیے اس نے خاص خاص واقعات کی یادگار قائم کرنے کے لیے ان تمام طریقوں سے پرہیز کا حکم دیا ہے، جو ان کی اصل روح کو فنا کرکے انہیں عیش و عشرت کی چند ظاہری رسوم کے لیے بہانہ بناسکتے ہوں، چناں چہ صحابہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین کے دور میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ انہوں نے سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت جیسے عظیم الشان واقعہ کا کوئی دن منایا ہو، اس کے برخلاف ان کی تمام تر توجہات آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنانے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیغام کو پھیلانے کی طرف مرکوز رہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے پر بھی ہم مسلمان بیٹھے ہیں اور اگر اسلام پر عمل کرنا چاہیں تو یہ دین ٹھیک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان تک پہنچایا تھا۔
لہٰذا اگر ہم اپنے اسلاف کے اس طرز عمل کو چھوڑ کر غیر مسلم اقوام کے دن منانے کے طریقے کو اپنائیں گے تو مطلب یہ ہوگاکہ ہم دین کے نام پر کھیل تماشوں کے اسی راستے پر جارہے ہیں جس سے اسلام نے بڑی احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہمیں بچایا تھا، آپ کو معلوم ہے کہ اسلام نے غیر مسلم اقوام کی مشابہت سے پرہیز کرنے کی جابجا انتہائی تدبیر کے ساتھ تلقین فرمائی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ عاشورہ محرم کا روزہ، جو ہر ا عتبار سے ایک نیکی ہی نیکی تھی، اس میں یہودیوں کی مشابہت سے بچانے کے لیے یہ حکم دیا گیا کہ صرف دس تاریخ کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ نو یا گیارہ تاریخ کا روزہ بھی رکھا جائے، تاکہ مسلمانوں کا روزہ عاشورہٴ یہود سے ممتاز ہوجائے۔
غور فرمائیے کہ جس دین حنیف نے اس باریک بینی کے ساتھ غیر مسلم اقوام کی تقلید، بلکہ مشابہت سے بچانے کی کوشش کی ہے، اس کو یہ کیسے گوارا ہوسکتا ہے کہ سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کا یوم پیدائش منانے کے لیے ان کی نقالی شروع کردی جائے جنہوں نے اپنے دین کو بگاڑ بگاڑ کر کھیل تماشوں میں تبدیل کردیا ہے؟
مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر ہم اپنے ملک کے تمام علماء، دینی راہ نما، مذہبی جماعتوں اور با اثر مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں، ہماری یہ اپیل صرف اہل حدیث اور دیوبندی مکتب فکر کے حضرات کی حد تک محدود نہیں، بلکہ ہم بریلوی مکتب فکر کے حضرات سے بھی یہی گزارش کرنا چاہتے ہیں ”عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم“ کے نام پر جو الم ناک حرکتیں اب شروع ہوگئی ہیں، وہ یقینا ان کو بھی گوارا نہیں ہوں گی۔

#بادل_چھٹ_گئےاورسورج_نمودارہوا____ میں کئی دن سے مولانا فضل الرحمن کی ذات ، سیاست کا تنقیدی جائزہ لے رہا تھا ۔ اس کے باوجود کہ میں اُنہیں جانتا ہوں ، برسوں سے جانتا ہوں ، بے شک وہ اج بھی مجھے جانتے ہیں لیکن کارکن ہزاروں بلکہ لاکھوں ہوتے ہیں جبکہ لیڈر کوئی کوئی ، لہذا اُن کا کم کم جانا بھی باعث سعادت ہے ۔

#بادل_چھٹ_گئےاورسورج_نمودارہوا____
میں کئی دن سے مولانا فضل الرحمن کی ذات ، سیاست کا تنقیدی جائزہ لے رہا تھا ۔ اس کے باوجود کہ میں اُنہیں جانتا ہوں ، برسوں سے جانتا ہوں ، بے شک وہ اج بھی مجھے جانتے ہیں لیکن کارکن ہزاروں بلکہ لاکھوں ہوتے ہیں جبکہ لیڈر کوئی کوئی ، لہذا اُن کا کم کم جانا بھی باعث سعادت ہے ۔
میں نے مولانا کی ذات کو پرکھا ۔ تاریخ کے جھروکوں سے محنت کش مزدور کی طرح دکھائی دیا ۔ نہ وسائل نہ سہولتیں پھر بھی نگر نگر علماء کو مل رہا ہے ۔ عوام سے رابطہ کر رہا ہے ۔ مخالفتوں کا سامنا کر رہا ہے ۔ظالمانہ نظام سے ٹکرا رہا ہے ۔ جیلیں کاٹ رہا ہے لیکن نہ خوش کن نعروں کی وجہ سے دھوکہ کھا رہا ہے نہ عوام میں جلدی بکنے والی چیز نفرت اور تعصب کا کاروبار کر رہا ہے ۔اتحاد اُمت ، پرامن جدوجہد ، جمہوری قوتوں کا ساتھ ؟ ضیاء الحق مرد مومن بنا ہے لیکن مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کیساتھ مل کے "تحریک بحالی جمہوریت " چلا رہا ہے ۔
اج کا نوجوان کیا جانے ؟
مولانا فضل الرحمن اقتدار کا بھوکا ہے ؟؟
الیکشن ہوتے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن پہلی دفعہ اسمبلی پہنچتا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہے ۔ غلام اسحاق خان کو صدر بنایا جائے ؟ بے نظیر بھٹو اعتراف کرتی ہے ۔ جان کی امان کی خاطر غلام اسحاق خان کو صدر بنا رہی ہوں ۔ لیکن مولانا فضل الرحمن نوجوان قیادت ہے ۔ غریب مولوی ہے ۔ چیف اف ارمی سٹاف مرزا اسلم بیگ کی کال بھی مسترد کرتا ہے غلام اسحاق خان کی التجا بھی رد کرتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے کی طرف سے نقد کروڑوں ، یاد رہے ، نقد کروڑوں کی لالچ کو بھی ٹکراتا ہے اور نوابزادہ نصراللہ خان کو صدارتی امیدوار نامزد کرتا ہے ۔
بات لمبی ہوجائیگی ۔ لہذا بادل چھٹ گئے ۔ سورج طلوع ہورہا ہے سنتے جائیں ۔
پاکستان کے تعفن زدہ ماحول میں نفرت اور تعصب بیچنا کتنا آسان ہے ؟؟
نفرت اور تعصب کے بازار میں جاہل بھی عالم کہلائے جارہے ہیں ۔ وہ وہ لوگ علامہ بنے بیٹھے ہیں جن کو ابھی طفل مکتب کے آداب کا بھی نہیں پتہ ؟ نفرتوں کے ایسے تاجر موجود ہیں کہ زبان کھولنے ، زہر بانٹنے کے بھی پیسے لے رہے ہیں ۔ لیکن مولانا فضل الرحمن علامہ نہیں ہے بس ہمیشہ سے طالب علم ہی ہیں ۔ کیا کسی نے کبھی مولانا فضل الرحمن کو بد اخلاقی کرتے دیکھا ہے ؟؟ نفرت اور تعصب بانٹتے دیکھا ہے؟؟ کبھی تشدد پہ مائل بیان بھی کبھی دیکھا ہے ؟؟ میرا یقین ہے اج بھی اپنے اصولوں پہ سمجھوتہ کرنے آجائے تو دولت کے انبار اکٹھے کرسکتا ہے ۔ لیکن خدانخواستہ اج بھی اگر اسمبلی ٹوٹتی ہے تو اسلام اباد میں مولانا کا اپنا کوئی مکان نہیں ۔ سرکاری گاڑیاں واپس ہوں تو اپنے شان کے مطابق کوئی گاڑی نہیں ۔ ہاں کارکن اج بھی ہزار نہیں لاکھوں ہیں ۔ چند ہزارے سیاستدانوں اور دھرنے کے عاشق پہلوانوں کو دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے مولانا دھرنے کی سیاست کیوں نہیں کر رہے ؟؟ پورے ملک میں پھیلے لاکھوں علماء اور کارکنان کو کال کیوں نہیں دیتے ؟؟ سنجیدہ ،غیر مقبول ، تشدد سے پاک پرامن سیاست نے مولانا کو کیا دیا ہے ؟؟ جمعیت کو کیا دیا ہے ؟؟ لیکن بات لینے اور دینے کی نہیں ۔ اسلام دین ہے اسلام رہنما ہے ۔ اسلام روشنی ہے اسلام سورج ہے ۔
بادل چھٹ رہے ہیں سورج طلوع ہورہا ہے۔
تعصب کی دوکانیں ، نفرت کی مارکیٹیں جلد بند ہونے لگی ہے اسلام طلوع ہورہا ہے مولانا فضل الرحمن کا اجلا کردار نمودار ہورہا ہے میں نے تنقیدی جائزہ لینا تھا لیکن میرا پیمانہ برسوں نہیں صدیوں پرانا تھا جبکہ مولانا فضل الرحمن چودہ سو سال بعد کا مسلمان ہے مولانا فضل الرحمن کے لئے خلفائے راشدین کا پیمانہ مناسب نہیں ۔ اج کے علماء سے تقابل کرلیں ۔
علم میں ، تقوی میں ، کردار میں ، گفتار میں ، اخلاق میں ، غمخوار میں ، امن میں ، محبت میں ، اخوت میں ، اتحاد اُمت میں ؟؟ مولانا فضل الرحمن کا اجلا کردار باعث فخر بھی ہے باعث وقار بھی ہے
بادل چھٹ رہے ہیں سورج طلوع ہورہا ہے ۔ اندھوں سے گلہ نہیں متعصب سے شکوہ نہیں ، بینا اور دانا اپنا ایمان بچائیں مولانا فضل الرحمن کو پہچانیں ۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے مزید دیر ہلاکت ہوگی ۔۔۔

اندلس میں مسلسل ایک ہفتےبارش کے باوجودان گلیوں اورسڑکوں پر پانی جمع نہیں ہواجن کومسلمانوں نے1000سال پہلے تعمیرکیاتھا(رپورٹ)⬇


اندلس میں مسلسل ایک ہفتےبارش کے باوجودان گلیوں اورسڑکوں پر پانی جمع نہیں ہواجن کومسلمانوں نے1000سال پہلے تعمیرکیاتھا(رپورٹ)

جشن کے نام پر کیا ہو رہا ہے خود دیکھیں....؟


جشن کے نام پر کیا ہو رہا ہے خود دیکھیں....؟
جو نبی عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دے گئے آج انہی کا نام انکی محبت میں ان خرافات کی رونق بن چکی ہیں مرد و عورت کا اختلاط اب خود بتائیں اس ماحول میں کس کا نفس قابو میں رہے گاکس کی نظر، کس کی انگلی بے قابو ہو جائے یہ تو آپ خود اندازہ کریں
اور ان سب کا ذمہ دار بریلوی مولوی ہیں ان کے عقیدے کے مطابق عورت قبرستان نہیں جا سکتی اور نہ مسجد میں نماز جمعہ ادا کر سکتی مگر اس کام کے لئے بازار جا سکتی۔


کسی زمانے میں ایک چور تھا، وہ ایک بادشاہ کے محل میں چوری کرنے کے ارادے سے گیا، رات کا وقت تھا اور محل کے ایک کمرے سے بادشاہ اور اس کی بیوی کی گفتگو کی آواز آرہی تھی۔ وہ کھڑے ہو کر سننے لگا، اگرچہ ایسا سننا غلط ہے، ناجائز ہے، چوری ہے لیکن چور تو چوری ہی کرنے آیا تھا تو اسے سننے میں کیا چیز مانع

کسی زمانے میں ایک چور تھا، وہ ایک بادشاہ کے محل میں چوری کرنے کے ارادے سے گیا، رات کا وقت تھا اور محل کے ایک کمرے سے بادشاہ اور اس کی بیوی کی گفتگو کی آواز آرہی تھی۔ وہ کھڑے ہو کر سننے لگا، اگرچہ ایسا سننا غلط ہے، ناجائز ہے، چوری ہے لیکن چور تو چوری ہی کرنے آیا تھا تو اسے سننے میں کیا چیز مانع
ہوتی؟آخر وہ چور ہی تو تھا۔اس چور نے سنا کہ بادشاہ اپنی بیوی سے کہہ رہا ہے کہ میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے آدمی سے کروں گا
جو نہایت متقی و پرہیزگار ہو، بہت اللہ والا ہو۔جب چور یہ بات سن رہا تھا تو اس کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں کچھ ایسا بن کر دکھاؤں کہ بادشاہ میرے ہی ساتھ شہزادی کی شادی کردے۔
دل میں ایک حرص پیدا ہوگئی، اب وہ چوری کرنا تو بھول گیا لیکن دھوکہ دینے پر اتر آیا اور گھر جا کر بہت دیر تک سوچنے لگا کہ کس طرح میں اس بات میں کامیاب ہوسکتا ہوں؟پھر ایک تدبیر اس کی سمجھ میں آئی کہ بادشاہ کے محل کے قریب ایک مسجد ہے،
اس میں جا کر بزرگانہ لباس پہن کر اور ان کی وضع قطع اختیار کر کے وہاں دن رات عبادت میں مشغول ہوکر بیٹھ جاؤں تو شاید یہ بات بادشاہ تک ضرور پہنچے گی کہ کوئی آدمی یہاں ایسا متقی پرہیزگار ہے جو دن رات اللہ کی عبادت میں مصروف ہے، تو ہوسکتا ہے کہ بادشاہ کی نگاہ میرے اوپر پڑ جائے اور میں شہزادی سے شادی کے لئے چن لیا جاؤں۔یہ اس چور کا ایک نہایت حقیر اور ذلیل دنیاوی مقصد تھا،
جس کے لئے اس نے یہ ارادہ کیا۔ پھر اس نے اپنے پروگرام کے مطابق بزرگانہ لباس و پوشاک، وضع قطع اختیار کر کے اس مسجد میں جا کر نمازوں پر نمازیں، ذکر و تلاوت، مراقبہ سب شروع کرلیا۔دن گزرتے رہے اور لوگوں میں شہرت ہوتی گئی کہ کوئی اللہ لے بہت بڑے ولی یہاں آگئے ہیں جو دن رات عبادت کرتے ہیں۔
یہاں تک کہ یہ بات بادشاہ تک پہنچ گئی کہ یہاں کوئی اللہ والے آکر بیٹھے ہیں، جوان، زہدوعبادت میں لاجواب، تقویٰ و طہارت میں بے نظیر، جب بادشاہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اپنے ارادے کے مطابق غور وفکر شروع کردیا کہ شہزادی کے متعلق جو سوچا تھا اس کے لئے اسی کا انتخاب کیوں نہ کر لیا جائے۔بادشاہ نے اس سلسلے میں گفتگو کے لئے اپنے وزیر کو بھیجا،
وزیر اس شخص کے پاس مسجد پہنچا اور باادب ہو کر اس سے کہا کہ میں آپ کی خدمت عالیہ میں بادشاہ کی طرف سے ایک پیغام لے کر آیا ہوں، اس نے پوچھا کہ کیا پیغام ہے؟وزیر نے بتایا کہ بادشاہ نے کئی سال پہلے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح ایک ایسے شخص سے کریں گے جو بڑا متقی و پرہیز گار ہو، اللہ والا ہو اور وہ اس کی تلاش میں تھے، ان جو نظر گئی تو نظر انتخاب آپ پر آکر رک گئی ہے،
لہذا بادشاہ نے مجھے بھیجا ہے کہ اس سلسلے میں آپ سے گفتگو کروں۔یہ شخص جو در اصل اسی تمنا و آرزو میں یہاں آکر بیٹھا تھا بہت دیر تک وزیر کی گفتگو سنتا رہا، اس کے بعد اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، وزیر نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو کہنے لگا کہ آج جو پیغام لے کر آپ آئے ہیں یہ پیغام مجھے منظور نہیں ہے،
وزیر نے کہا کہ کیوں منظور نہیں؟اس شخص نے کہا کہ دیکھئے میں صاف صاف بات آپ کو بتاتا ہوں کہ میں اصل میں ایک چور تھا اور ایک مرتبہ بادشاہ کے محل میں چوری کے ارادے سے گیا تھا، پھر جو کچھ بھی ہوا اس کو سنایا اور اس کے بعد اس چور نے کہا کہ میں نے تو یہ وضع قطع اسی حرص کی وجہ سے اختیار کی تھی لیکن میں یہاں آکر بیٹھا تو میرے خدا نے مجھے اپنا بنا لیا،
اب بس اس کے بعد مجھے اور کسی کی ضرورت نہیں میرے لئے میرا خدا کافی ہے۔بے شک! جب عبادت عبادت ہوجائے، نماز نماز ہوجائے، ذکر ذکر ہوجائے اور ہماری دیگر عبادتیں واقعی عبادتیں ہوجائیں تو بے شک یہ نمازیں اور عبادتیں انسان کو برائیوں سے روکتی ہیں۔

Saturday, November 24, 2018

KARACHI: Sindh Chief Minister Murad Ali Shah on Saturday said he had directed the inspector general of police (IGP) to conduct a security audit of all diplomatic missions and provide bulletproof jackets to the policemen deployed there.

KARACHI: Sindh Chief Minister Murad Ali Shah on Saturday said he had directed the inspector general of police (IGP) to conduct a security audit of all diplomatic missions and provide bulletproof jackets to the policemen deployed there.
“We are also working to accomplish the safe city project on a war-footing basis,” he said while speaking to Chinese Ambassador to Pakistan Yao Jing, who called on him here at the CM House.
Consul General Wang Yu, Chief Secretary Mumtaz Shah, IG Dr Kaleem Imam and principal secretary to CM Sajid Jamal Abro were also present at the meeting.
Mr Shah said the force deployed at Sindh-Balochistan border had been instructed to strengthen their security and checking mechanism.
“Sindh and Balochistan governments are jointly working to keep an eye on the movement of terrorists and outlaws at the [inter-provincial] borders,” he said.
He said China and Pakistan were tested friends and important development partners and the attack on the Chinese consulate general in Karachi was carried out because the friendship of the two neighbours was not tolerable to “enemies”.
A spokesperson for the CM House said that the Chinese envoy appreciated the efforts and timely operation of the provincial government.
Published in Dawn, November 25th, 2018

HYDERABAD: Leaders of Pakistan Sunni Tehreek (PST) and its allied parties have distanced themselves from Tehreek-i-Labbaik Pak­istan’s (TLP) call for coun­trywide protest on Nov 25 and said they were never part of TLP.

HYDERABAD: Leaders of Pakistan Sunni Tehreek (PST) and its allied parties have distanced themselves from Tehreek-i-Labbaik Pak­istan’s (TLP) call for coun­trywide protest on Nov 25 and said they were never part of TLP.
Speaking at a hurriedly-called press conference at the local press club on Saturday, Khalid Hassan Attari, Imran Soharwardi, Allama Jawad Raza Barkati, Allama Muharram Din Qadri and others said that they condemned hate speeches by TLP head Khadim Hussain Rizvi.
They demanded immediate release of activists of Tanzeemat-i-Ahle Sunnat, a conglomerate of various religious parties including Pakistan Sunni Tehreek, Jamaat Ahle Sunnat, Darul Uloom Ahsanul Barkat, Dargah Syedna Sakhi Abdul Wahab Shah Jilani Trust and Paigham-i-Mustafa.
They called for stopping crackdown against their parties and said that around six activists of PST and other parties had been arrested by Rangers and police since Friday night soon after the arrest of TLP chief.
They said that they condemned hate speeches by TLP chief and terrorist attack on Chinese consulate in Karachi. They had always remained staunch supporters of Pak army and never used objectionable language against institutions of the state, they said.