سورۃ علق میں اللہ سبحانہ وتعالی فرماتاہے: ﴿كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعَ بِالنَّاصِيَةِ(15)نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ(16)﴾(العلق:15- 16).
"ہرگز نہیں اگر یہ باز نہ آئے توہم اس کی پیشانی کو داغ دیں گے جو کہ جھوٹی اور خطاکارپیشانی ہے"۔
یہاں سوال یہ اٹھایا جاتا تھا کہ پیشانی کیسے جھوٹی اور خطار ہوسکتی ہے یہ بولتی نہیں تو اس کو جھوٹی کیسے کہاجائے؟
مگر سائنسی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ جب انسان جھوٹ بولنے کا ارادہ کرتاہے توفیصلہ پیشانی کے اس حصے سے صادر ہوتاہے اسی طرح غلط فیصلے بھی اس حصے سے صادر ہوتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن اور احادیث میں کئی بار پیشانی کا اور درست اور غلط فیصلوں کا ذکرہے حتی کہ گھوڑے کی پیشانی کا بھی ذکر ہے، اب جدید سائنس کے مطابق پیشانی کا یہ حصہ جھوٹ اور غلط فیصلوں کا مرکزہے۔
پروفیسر "کیٹ مور" کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے قرآن انسان کا کلام نہیں!!
"ہرگز نہیں اگر یہ باز نہ آئے توہم اس کی پیشانی کو داغ دیں گے جو کہ جھوٹی اور خطاکارپیشانی ہے"۔
یہاں سوال یہ اٹھایا جاتا تھا کہ پیشانی کیسے جھوٹی اور خطار ہوسکتی ہے یہ بولتی نہیں تو اس کو جھوٹی کیسے کہاجائے؟
مگر سائنسی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ جب انسان جھوٹ بولنے کا ارادہ کرتاہے توفیصلہ پیشانی کے اس حصے سے صادر ہوتاہے اسی طرح غلط فیصلے بھی اس حصے سے صادر ہوتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن اور احادیث میں کئی بار پیشانی کا اور درست اور غلط فیصلوں کا ذکرہے حتی کہ گھوڑے کی پیشانی کا بھی ذکر ہے، اب جدید سائنس کے مطابق پیشانی کا یہ حصہ جھوٹ اور غلط فیصلوں کا مرکزہے۔
پروفیسر "کیٹ مور" کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے قرآن انسان کا کلام نہیں!!
اس امت کا فرعون ابو جہل اسلام کا دشمن تھا،وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے کے لیے ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن مجید میں فرماتاہے:
(کَلَّا لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ لا لَنَسْفَعًا م بِالنَّاصِیَةِ ۔ نَاصِیَةٍ کَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ )
” ہرگز نہیں ،اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے کھینچیں گے، اس پیشانی کوجو جھوٹی او رسخت خطاکارہے”
(سورہ العلق)
” ہرگز نہیں ،اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے کھینچیں گے، اس پیشانی کوجو جھوٹی او رسخت خطاکارہے”
(سورہ العلق)
اس آیت میں پیشانی کا خاص طورپر ذکر کیا گیا ہے۔جس سے اس کی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے۔جدید طبی تحقیق نے مندرجہ بالا آیت کریمہ میں موجود ایک ایسے نکتے کی طرف نشاندہی کی ہے کہ جس کے متعلق ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آج میڈیکل سائنس نے ہمیں یہ معلومات فراہم کی ہیں کہ انسان کے دماغ کا اگلا حصّہ جسے Prefrontal Areaکہتے ہیں،سامنے والے حصے (پیشانی )میں واقع ہے اورجو کسی اچھے یابرے کام کے کرنے کے بارے میں سوچ بچار اور تحریک پیدا کرتاہے اور یہی حصّہ انسان کے سچ یا جھوٹ بولنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
سائنس کی کتاب میں انسانی دماغ کے متعلق لکھاہے کہ:
”اسباب ،دوراندیشی کے متعلق منصوبے اورحرکت کی طرف پیش قدمی سر کے سامنے والے حصے پیشانی میں وقوع پذیر ہوتے ہیں جس کو (Prefrontal Area)کہتے ہیں”۔
(Essentials of Anatomy and Physiology, Seeley and Otmens)
پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مور کے مطابق سائنس دان سر کے سامنے والے حصہ پیشانی کے اس فریضہ منصبی کو پچھلے ساٹھ سالوں کے دوران دریافت کرپائے ہیں۔
(The Scientific Miracles in the front of the head, Moore and Others)
سائنس کی کتاب میں انسانی دماغ کے متعلق لکھاہے کہ:
”اسباب ،دوراندیشی کے متعلق منصوبے اورحرکت کی طرف پیش قدمی سر کے سامنے والے حصے پیشانی میں وقوع پذیر ہوتے ہیں جس کو (Prefrontal Area)کہتے ہیں”۔
(Essentials of Anatomy and Physiology, Seeley and Otmens)
پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مور کے مطابق سائنس دان سر کے سامنے والے حصہ پیشانی کے اس فریضہ منصبی کو پچھلے ساٹھ سالوں کے دوران دریافت کرپائے ہیں۔
(The Scientific Miracles in the front of the head, Moore and Others)
مندرجہ بالا آیت ِ کریمہ میں چونکہ ذکر ابوجہل کاآیا ہے لہٰذا اسی وجہ سے یہاں پیشانی کو سخت خطارکار اور جھوٹا ہی کہا گیا۔ انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کے مطابق جد ید تحقیق نے دریافت کیا ہے کہ اگر دماغ کا یہ حصہ کسی و جہ سے ناکارہ ہو جائے تو وہ انسان اخلاقی پستی کاشکارہوجاتا ہے۔اس حصے میں نقص واقع ہونے سے انسان برے کاموں کے متعلق سوچنا شروع کر دیتاہے اور آخر کار وہ اپنے مسائل کو حل کرنے میں بھی ناکام ہو جاتا ہے۔
جھوٹ کی شروعات اسی حصے (Frontal Lobes ) کے مرکز سے ہوتی ہے۔دماغ کا یہی حصہ جھوٹ بولنے پر اکساتا ہے اور اس پر عمل کروانے کے لیے جسم کے دوسرے حصوں کو ہدایات بھی دیتا ہے۔
جھوٹ کی شروعات اسی حصے (Frontal Lobes ) کے مرکز سے ہوتی ہے۔دماغ کا یہی حصہ جھوٹ بولنے پر اکساتا ہے اور اس پر عمل کروانے کے لیے جسم کے دوسرے حصوں کو ہدایات بھی دیتا ہے۔
فکر وتدبر کی ساری صلاحیتیں اسی حصے میں ہوتی ہیں۔سر کے اسی حصہ کو ناصیہ کہا گیا ہے۔ اس کاذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث (دعا)میں بھی آیا ہے:
(اللھم انی عبد ک وابن عبدک وابن امتک ناصیتی بیدک)
”اے اللہ بے شک میں آپ کا بندہ ہوں۔ آپ کے بندے اوربندی کی اولاد ہوں،میری پیشانی آپ کے قبضہ میں ہے”
(مسند احمد)
”اے اللہ بے شک میں آپ کا بندہ ہوں۔ آپ کے بندے اوربندی کی اولاد ہوں،میری پیشانی آپ کے قبضہ میں ہے”
(مسند احمد)
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد ”ناصیتی بیدک”یعنی میری پیشانی آپ کے قبضے میں ہے میں اس بات کا مکمل اشارہ ملتا ہے کہ انسان یعنی اس کے دماغ کااگلا حصہ جو مغزکے دونوں ابھرے ہوئے حصوں پر مشتمل ہے،جن میں انسان کی بلند ترین عقلی وشعوری سرگرمیوں کے مراکز پائے جاتے ہیں۔یہ پیشانی اللہ جل شانہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے، وہ جس طرح چاہتاہے تصرف کرتاہے اورجس رخ پر چاہتاہے اسے ڈال دیتاہے اورجب اللہ کی مشیت ہوتی ہے وہ مغز دماغ کے دونوں ابھرے ہوئے حصوں میں پائے جانے والے جسمانی مراکز کی فکری سرگرمیوں کو نئے افکار پہنچاتاہے۔