Sunday, November 25, 2018

#بادل_چھٹ_گئےاورسورج_نمودارہوا____ میں کئی دن سے مولانا فضل الرحمن کی ذات ، سیاست کا تنقیدی جائزہ لے رہا تھا ۔ اس کے باوجود کہ میں اُنہیں جانتا ہوں ، برسوں سے جانتا ہوں ، بے شک وہ اج بھی مجھے جانتے ہیں لیکن کارکن ہزاروں بلکہ لاکھوں ہوتے ہیں جبکہ لیڈر کوئی کوئی ، لہذا اُن کا کم کم جانا بھی باعث سعادت ہے ۔

#بادل_چھٹ_گئےاورسورج_نمودارہوا____
میں کئی دن سے مولانا فضل الرحمن کی ذات ، سیاست کا تنقیدی جائزہ لے رہا تھا ۔ اس کے باوجود کہ میں اُنہیں جانتا ہوں ، برسوں سے جانتا ہوں ، بے شک وہ اج بھی مجھے جانتے ہیں لیکن کارکن ہزاروں بلکہ لاکھوں ہوتے ہیں جبکہ لیڈر کوئی کوئی ، لہذا اُن کا کم کم جانا بھی باعث سعادت ہے ۔
میں نے مولانا کی ذات کو پرکھا ۔ تاریخ کے جھروکوں سے محنت کش مزدور کی طرح دکھائی دیا ۔ نہ وسائل نہ سہولتیں پھر بھی نگر نگر علماء کو مل رہا ہے ۔ عوام سے رابطہ کر رہا ہے ۔ مخالفتوں کا سامنا کر رہا ہے ۔ظالمانہ نظام سے ٹکرا رہا ہے ۔ جیلیں کاٹ رہا ہے لیکن نہ خوش کن نعروں کی وجہ سے دھوکہ کھا رہا ہے نہ عوام میں جلدی بکنے والی چیز نفرت اور تعصب کا کاروبار کر رہا ہے ۔اتحاد اُمت ، پرامن جدوجہد ، جمہوری قوتوں کا ساتھ ؟ ضیاء الحق مرد مومن بنا ہے لیکن مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کیساتھ مل کے "تحریک بحالی جمہوریت " چلا رہا ہے ۔
اج کا نوجوان کیا جانے ؟
مولانا فضل الرحمن اقتدار کا بھوکا ہے ؟؟
الیکشن ہوتے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن پہلی دفعہ اسمبلی پہنچتا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہے ۔ غلام اسحاق خان کو صدر بنایا جائے ؟ بے نظیر بھٹو اعتراف کرتی ہے ۔ جان کی امان کی خاطر غلام اسحاق خان کو صدر بنا رہی ہوں ۔ لیکن مولانا فضل الرحمن نوجوان قیادت ہے ۔ غریب مولوی ہے ۔ چیف اف ارمی سٹاف مرزا اسلم بیگ کی کال بھی مسترد کرتا ہے غلام اسحاق خان کی التجا بھی رد کرتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے کی طرف سے نقد کروڑوں ، یاد رہے ، نقد کروڑوں کی لالچ کو بھی ٹکراتا ہے اور نوابزادہ نصراللہ خان کو صدارتی امیدوار نامزد کرتا ہے ۔
بات لمبی ہوجائیگی ۔ لہذا بادل چھٹ گئے ۔ سورج طلوع ہورہا ہے سنتے جائیں ۔
پاکستان کے تعفن زدہ ماحول میں نفرت اور تعصب بیچنا کتنا آسان ہے ؟؟
نفرت اور تعصب کے بازار میں جاہل بھی عالم کہلائے جارہے ہیں ۔ وہ وہ لوگ علامہ بنے بیٹھے ہیں جن کو ابھی طفل مکتب کے آداب کا بھی نہیں پتہ ؟ نفرتوں کے ایسے تاجر موجود ہیں کہ زبان کھولنے ، زہر بانٹنے کے بھی پیسے لے رہے ہیں ۔ لیکن مولانا فضل الرحمن علامہ نہیں ہے بس ہمیشہ سے طالب علم ہی ہیں ۔ کیا کسی نے کبھی مولانا فضل الرحمن کو بد اخلاقی کرتے دیکھا ہے ؟؟ نفرت اور تعصب بانٹتے دیکھا ہے؟؟ کبھی تشدد پہ مائل بیان بھی کبھی دیکھا ہے ؟؟ میرا یقین ہے اج بھی اپنے اصولوں پہ سمجھوتہ کرنے آجائے تو دولت کے انبار اکٹھے کرسکتا ہے ۔ لیکن خدانخواستہ اج بھی اگر اسمبلی ٹوٹتی ہے تو اسلام اباد میں مولانا کا اپنا کوئی مکان نہیں ۔ سرکاری گاڑیاں واپس ہوں تو اپنے شان کے مطابق کوئی گاڑی نہیں ۔ ہاں کارکن اج بھی ہزار نہیں لاکھوں ہیں ۔ چند ہزارے سیاستدانوں اور دھرنے کے عاشق پہلوانوں کو دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے مولانا دھرنے کی سیاست کیوں نہیں کر رہے ؟؟ پورے ملک میں پھیلے لاکھوں علماء اور کارکنان کو کال کیوں نہیں دیتے ؟؟ سنجیدہ ،غیر مقبول ، تشدد سے پاک پرامن سیاست نے مولانا کو کیا دیا ہے ؟؟ جمعیت کو کیا دیا ہے ؟؟ لیکن بات لینے اور دینے کی نہیں ۔ اسلام دین ہے اسلام رہنما ہے ۔ اسلام روشنی ہے اسلام سورج ہے ۔
بادل چھٹ رہے ہیں سورج طلوع ہورہا ہے۔
تعصب کی دوکانیں ، نفرت کی مارکیٹیں جلد بند ہونے لگی ہے اسلام طلوع ہورہا ہے مولانا فضل الرحمن کا اجلا کردار نمودار ہورہا ہے میں نے تنقیدی جائزہ لینا تھا لیکن میرا پیمانہ برسوں نہیں صدیوں پرانا تھا جبکہ مولانا فضل الرحمن چودہ سو سال بعد کا مسلمان ہے مولانا فضل الرحمن کے لئے خلفائے راشدین کا پیمانہ مناسب نہیں ۔ اج کے علماء سے تقابل کرلیں ۔
علم میں ، تقوی میں ، کردار میں ، گفتار میں ، اخلاق میں ، غمخوار میں ، امن میں ، محبت میں ، اخوت میں ، اتحاد اُمت میں ؟؟ مولانا فضل الرحمن کا اجلا کردار باعث فخر بھی ہے باعث وقار بھی ہے
بادل چھٹ رہے ہیں سورج طلوع ہورہا ہے ۔ اندھوں سے گلہ نہیں متعصب سے شکوہ نہیں ، بینا اور دانا اپنا ایمان بچائیں مولانا فضل الرحمن کو پہچانیں ۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے مزید دیر ہلاکت ہوگی ۔۔۔

No comments:

Post a Comment