Sunday, December 2, 2018

حلوہ اور وہ بھی انڈوں کا!!

حلوہ اور وہ بھی انڈوں کا!!
“ڈالر شریف” آسمان سے باتیں کرنے لگا جس کی بنیادی وجہ پاکستانی روپیہ کا زمین بوس ہونا ہے یعنی”ہم” کہی کے نہیں رہے مگر ہمارے وزیراعظم صاحب کا فرمان ہے کہ”گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے” بس یونہی ایک کہاوت زہن میں آگئی جو حاضرخدمت ہیں۔ کہتے ہے کہ کسی ملک کی بادشاہ کی موت کے بعد بادشاہت پر جھگڑا شروع ہوا اور اتفاق رائے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی تو بالآخر فیصلہ ہوا کہ کل علی الصبح جو بھی شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوگا اسی کو تخت پہ بٹھایا جائے گا۔ اتفاق سے شہر میں سب سے پہلے ایک زمیندار،جو کندھے پہ چادر ڈالے اور ہاتھ میں درانتی پکڑا ہوا تھا داخل ہوا۔اسے پکڑ کر تخت پہ بٹھایا گیا اور تاج پہنایا گیا۔ان کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اخر یہ ہے کیا ماجرہ ؟ مگر انھیں سمجھایا گیا کہ قسمت یعنی”وقار” کی دیوی ان پہ مہربان ہوئی ہے اور اب وہ خیر سے ملک کے بادشاہ یعنی وزیراعظم محترم ہونگے۔ پورے ملک میں جشن کا سماں رہا کہ”تبدیلی” آگئی ہے کہ ملک کی تاریخ میں انہونی ہوگئی ہے اور ایک زمیندار بیچارہ”خوابوں” کی دنیا سے نکل کر حقائق کی دنیا میں آگرا ہے ۔ بادشاہ سلامت کی زہن میں ایک ہی چیز پیوست ہوکے رہ گئی تھی کہ جو بھی مشکل پیش آتا وہ فورً حلوے کی دیگیں پکانے کا حکم جاری فرما لیتا، بس یوں سمجھ لیجئے کہ ہر مرض کی دوا”قوم سے ایک عدد تقریر” ٹھرا تھا۔ قصہ مختصر،پڑوسی ملک نے ان کی ملک پر چڑائی کا فیصلہ کیا اور انٹیلیجنس اداروں نے بروقت انھیںُ آگاہ بھی کیا مگر حسب معمول انھوں نے حلوے کے دیگ پکانے کا آرڈر جاری کیا۔ انھیں بتایا گیا کہ جناب،فوجوں نے باقاعدہ پیش قدمی شروع کی ہے۔حکم صادر ہوا،حلوہ____ انھیں خبردار کیا گیا کہ جناب فوجیں دار الخلافہ پہنچ گئی ہیں، تو حکم جاری ہوا کہ حلوے کی ایک نہیں کئی دیگیں تیار کی جائیں۔ ہنگامہ برپا ہوا کہ دشمن کی فوجیں محل میں داخل ہونے کو ہیں۔بادشاہ سلامت نے حلوے کی پلیٹ صاف فرمائی اور ایک عظیم الشان ڈکار لیتے ہوئے محفل کے ایک کونے میں پڑا ہوا اپنا چادر اٹھایا،کندھے پہ سلیقے سے رکھا اور درانتی کو ہاتھ میں پکڑا کر ہوا میں لہرایا کہ” گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں،حلوہ کھایا کرے اور مزے کیجئے۔
*کسی کے ساتھ کوئی مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔ کوئی غلط مطلب نکالنا ہر کسی کی اپنی زمہ داری ہوگی۔ ہر کسی کے ساتھ ہمارا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے۔
*ہم تو گھبرانے والے بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ ذہنی طور پہ ہم تیار ہیں کہ ڈالر حضرت نے کم ازکم ایک سو پینتالیس کو تو ہر صورت پہنچنا ہی ہے کہ آئی ایم ایف صاحب سے باقاعدہ اس پہ ایگریمنٹ سائن ہوا ہے یعنی قرض اسی کے ساتھ مشروط ہے۔ البتہ ایک سو پچاس کو کراس کرانا زیادہ وفاداری دکھانا مقصود ہوگا۔

No comments:

Post a Comment